افریقہ کی سیاہ فام خواتین میں رنگ گورا کرنے کا جنون
21 جولائی 2015کسی زمانے میں افریقہ کی ’ بلیک بیوٹی‘ مشہور تھی۔ سیاہ فام افریقی خواتین کو غیر معمولی کشش کا حامل تصور کیا جاتا تھا۔ بدلتے دور کے ساتھ ساتھ خوبصورتی کا معیار بھی بدلتا جا رہا ہے۔ اب وہی سیاہ فام خواتین جن کی چمکتی ہوئی سیاہ رنگت گوری اور بھوری رنگت والی خواتین کو بھی اپنی جلد کو بھورا بنانے کی ترغیب دلاتی تھی، اپنی جلد کا رنگ ہلکا کرنے کے لیے کریموں کا بے تحاشہ استعمال کر رہی ہیں۔
گورا یا جلد کے رنگ کو نکھارنے کے لیے استعمال کی جانے والی کریموں میں بہت زیادہ کیمیکلز شامل ہوتے ہیں۔ ایسی چند بین الاقوامی شہرت یافتہ کاسمیٹکس کمپنیوں کی طرف سے تیار کردہ کریمیں تو جلد کے لیے اچھی اور صحت مند ثابت ہوتی ہیں لیکن یہ بہت قیمتی ہوتی ہیں۔ جلد کے رنگ کو صاف بنانے اور نکھارنے کے لیے دستیاب سستی کریمیں زیادہ تر بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ ان میں زہریلے مادے کی ملاوٹ ہوتی ہے جو جلد پر تیزاب جیسے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
29 سالہ آنو جیولییس نے اپنی بہن کے کہنے پر اپنے جسم کی رنگت کو ہلکا اور نکھارنے کے لیے بلیچ کریم کا استعمال شروع کیا اور چار ہفتے بعد اُس کے ہاتھوں اور پیروں میں خارش شروع ہو گئی اور اُس کے چہرے کی جلد خطرناک حد تک کھنچ گئی۔ اب وہ دھوپ میں نہیں نکل سکتی کیونکہ اُس کی جلد دھوپ کی تپش بھی برداشت نہیں کر پاتی۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے اندازوں کے مطابق نائجیریا میں ہر تین میں سے دو خواتین اپنی جلد کی رنگت کو ہلکا یا بھورا بنانے کے لیے سستی بلیچ اور دیگر کریموں کا استعمال کرتی ہیں حالانکہ افریقہ میں ان سستی کریموں کے نقصانات کا خوایتن کو علم ہے۔
افریقی ملک ٹوگو میں 59 فیصد خواتین پاقاعدگی سے جلد کی رنگت نکھارنے کے لیے بلیچ کریموں کا استعمال کرتی ہیں۔
عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او کے مطابق افریقی ممالک میں دستیاب زیادہ تر کریمیں اور لوشننز غیر قانونی ہیں کیونکہ ان میں مرکری، اسٹیرؤڈ اور بلیچنگ ایجنٹ جیسے کے ہائیڈروکوئینون وغیرہ شامل ہوتا ہے، جو کینسر، ہائپر پگمنٹیشن اور جلد کو ایسے نقصانات پہنچانے کا سبب بنتے ہیں، جو ناقابل تلافی ہوتے ہیں۔
کیپ ٹاؤن یونیورسٹی کی لیبارٹری میں ایسی 29 کریموں کا معائنہ کیا گیا جس کے نتائج سے یہ انکشاف ہوا کہ ان میں سے قریب تمام کریموں میں زہریلے اور جلد کو شدید نقصان پہنچانے والے کیمیائی مادے موجود ہیں۔