1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افراتفری پھیلانے والے شمالی افریقی مہاجرین ’ نافریز‘

صائمہ حیدر
4 جنوری 2017

جرمن پولیس کی جانب سے گزشتہ برس نئے سال کی آمد پر  خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے والے شمالی افریقی مہاجرین کے لیے نیا مخفف استعمال کرنے پر ملک میں مہاجرت اور جرم کے حوالے سے نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2VEdu
Afrika Europa spanische Enklave Ceuta - Flüchtlinge
تصویر: Reuters/M. Martin

جرمنی کے شہر کولون میں پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے رواں ہفتے نئے سال کے موقع پر قریب 650 ’نافریز‘ کی اسکریننگ کرتے ہوئے متوقع بد مزگی کو دور کر دیا ہے۔ ’نافری‘ جرمن زبان میں ’ نارتھ افریقانشے انٹینزیوٹیٹر‘ کا مخفف ہے جس کے معنی اردو میں ’شمالی افریقہ کے قانون شکنی کرنے والے افراد‘ لیا جا سکتا ہے۔

جرمن پولیس کے مطابق کولون شہر کے مرکز سے 190 شمالی افریقی مہاجرین کو ہٹانے کے علاوہ 92 کو حراست میں لیا گیا ہے۔ سن 2016 کی آمد پر کولون میں متعدد خواتین پر ’تارکینِ وطن کا پس منظر‘ رکھنے والے افراد کی جانب سے جنسی حملوں کے بعد شہرکی پولیس کو سکیورٹی کے ناکافی انتظامات پر کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

کولون شہر کی پولیس پر الزام تھا کہ وہ سینکڑوں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے سے محفوظ رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ اِن تارکینِ وطن میں مبینہ طور پر زیادہ تعداد شمالی افریقہ سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن کی تھی۔ کولون شہر کی پولیس کی جانب سے سن 2017 کی آمد پر سیکیورٹی کے اضافی اقدامات گذشتہ برس کے نا مناسب واقعات کے تناظر میں کیے گئے۔

 تاہم شمالی افریقی تارکینِ وطن کے لیے ’نافری‘ کی ترکیب کے استعمال کو جرمنی میں بعض بائیں بازو کی سوچ کے حامل سیاست دانوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اِن سیاست دانوں نے اِس ترکیب کو نسلی تعصب سے تعبیر کرتے ہوئے اِس کی مذمت کی ہے۔ جبکہ اِس کا دفاع کرنے والوں کا موقف ہے کہ یہ جرمن زبان میں محض ایک نئے مخفف کا اضافہ ے تاکہ مشکل مرکب نام کو آسان فہم بنایا جا سکے۔

Deutschland Hauptbahnhof Vorplatz in Köln
تصویر: Reuters/W. Rattay

 کولون یونیورسٹی میں سیاسیات کے مضمون کے ماہر تھومس یائگر کا کہنا ہے ،’’ یہ بہت عجیب ہے، لفظ ’نافری‘ پر بحث کرنے کی بجائے یہ کہنا بہتر ہوتا کہ  خوش قسمتی سے نئے سال کی آمد پر کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔‘‘

یائگر کا مزید کہنا تھا،’’ پولیس پر نسلی امتیاز کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ اُسے اور کیا کرنا چاہیے تھا؟ کیا تمام نوجوان اور بوڑھی خواتین کی اسکریننگ کی جاتی؟ نسلی امتیاز جرمنی میں غیر قانونی ہے لیکن پولیس اِس بات کی مجاز ہے کہ اگر وہ کسی فرد کو ممکنہ سلامتی کے خطرے کے طور پر دیکھے تو اُس کی اسکریننگ کر سکے۔‘‘

یاد رہے کہ بین الاقوامی سطح پر شہ سرخیاں بننے والے ان جنسی حملوں نے چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجرین دوست پالیسی پر ناقدانہ بحث کو تقویت دی تھی۔ سوال یہ تھا کہ مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد، جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، کا جرمن معاشرے میں انضمام کیسے ممکن ہو گا۔ ایک ایسے موقع پر جب جرمنی اگلے برس پارلیمانی انتخابات کی تیاری میں مصروف ہے، تمام اہم جماعتوں نے مہاجرین کے حوالے سے اپنے نکتہء نظر میں سختی پیدا کر دی ہے۔