1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا بل: کئی حلقوں کو تشویش

عبدالستار، اسلام آباد
26 مارچ 2021

پاکستان میں اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے حوالے سے ایک مسودہ قانون منظر عام پر آیا ہے، جس پر کئی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس سے ملک کے لیے بہت سارے مالی اور معاشی مسائل پیدا ہونگے۔

https://p.dw.com/p/3rF4p
اسٹیٹ بینک آف پاکستان
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

اس مجوزہ قانون کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ دوہزار اکیس کا نام دیا گیا ہے اور اس کی منظوری وفاقی کابینہ نے نو مارچ کو دی تھی۔ پاکستان میں ناقدین کا خیال ہے کہ یہ مسودہ قانون  آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت لایا گیا ہے اور اس سے ملک کے لیے بہت سارے مالی اور معاشی مسائل پیدا ہونگے، جس کا نتیجہ سماجی انتشار کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ دوہزار اکیس کے مسودہ قانون کے مندرجات:

اس ایکٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک حکومت کو کوئی قرضہ جاری نہیں کرے گا۔ اسٹیٹ بینک کا بنیادی مقصد مقامی سطح پر قیمتوں کو مستحکم کرنا اور معاشی استحکام پیدا کرنا ہوگا اور اسٹیٹ بینک حکومت کی معاشی پالیسیوں کی حمایت کرے گا۔ اس ایکٹ کے مطابق صدر مملکت کو حکومت کی سفارش پر گورنر اسٹیٹ بینک کی تقرری کا اختیار حاصل ہوگا۔ صدر مملکت عدالتی فیصلے کے تحت گورنر اسٹیٹ بینک کو ہٹا سکیں گے۔ اس قانون کے تحت گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت میں بھی توسیع کر دی جائے گی اور ان کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کی تجویز کی گئی ہے، جس میں مزید پانچ سال کی توسیع بھی دی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ ڈپٹی گورنرز کی تعداد تین کرنے کی بھی تجویز ہے، جن کی مدت ملازمت  میں مزید پانچ سال کی توسیع دی جا سکے گی۔ گورنر اسٹیٹ بینک وزیرخزانہ کی مشاورت سے ڈپٹی گورنرز کے نام تجویز کریں گے۔

پاکستانی معیشت
تصویر: Aamir Qureshi/Getty Images/AFP

’خودمختاری گروی رکھ دی‘

حکومتی حلقوں کا دعوی ہے کہ اس مسودہ قانون کا بنیادی مقصد اسٹیٹ بینک کے اندر سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرنا ہے لیکن ناقدین کے خیال میں پی ٹی آئی کی حکومت ایسا کرکے پاکستان کی خودمختاری کو گروی رکھ رہی ہے اور مالیاتی امور حکومت کے کنٹرول سے نکل جائیں گے۔ معروف معیشت دان قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ اس قانون کے بعد اسٹیٹ بینک حکومت کے اختیار سے باہر نکل جائے گا، جس کے  ملک اور معیشت پر خطرناک اثرات  مرتب ہوں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بل کے بعد اسٹیٹ بینک میں حکومت کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا مکمل اختیار بینک کے پاس آ جائے گا اور حکومت اس بات کی پابند ہوگی کہ وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کو اپنی پہلی ترجیح بنائیں اور وہ اس بات کی پابند ہوگی کہ دوسرے اخراجات کے بارے میں بعد میں سوچیں۔  تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی آمدنی بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے چلی جائے گی۔‘‘

مزید پڑھیے: معیشت میں بہتری کے دعوے

قیصر بنگالی کا مزید کہنا تھا کہ اگر حکومت اسٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے سکے گی تو پھر کیا ہوگا۔ ان کے بقول، ''ایسی صورت میں حکومت کو کمرشل بینکوں سے مہنگے قرضے لینے پڑیں گے اور 80 فیصد سے زائد بینکنگ سیکٹر کی جو ملکیت ہے وہ غیر ملکیوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف حکومت قرض اتارنے پر لگی ہو گی اور دوسری طرف حکومت مزید قرض لینے پرمجبور ہوگی، جس کی وجہ سے ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے کہ حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی ادا نہیں کر پائے گی۔‘‘

سماجی انتشار

پاکستان کے معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے معروف صحافی اور سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ایکسپریس ٹریبیون ضیاء الدین کا کہنا ہے کہ اس بل کے نتیجے میں سماجی انتشار بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ بل نافذ کیا جائے گا، اسی لیے 50 کروڑ ڈالرز کی قسط ملی ہے۔ لیکن جب حکومت اس بل کو نافذ کرے گی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ یہاں تک کہ آپ کا جوہری پروگرام بھی متاثر ہوگا اور پولیس اور سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کے لیے بھی لالے پڑ جائیں گے۔‘‘

 

پاکستانی روپے کی قدر میں کمی
تصویر: Abdul Majeed/Getty Images/AFP

ضیاء الدین کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بجلی بھی بہت مہنگی ہو جائے گی۔ ان کے بقول، ''اس سے آپ کی نہ صرف صنعت تباہ ہوگی بلکہ عام پاکستانی کے لیے بھی بے پناہ مشکلات پیدا ہوں گی کیونکہ اس بل کے بعد جو سبسیڈیز عام غریب صارف کو ملتی ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں گی۔ حالات یہ بتا رہے ہیں کہ ایک سال کے اندر بجلی پر سات روپے تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘

عوامی دباؤ کی وجہ سے عمل درآمد مشکل ہوگا

معاشی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ حکومت کوآئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لینے کے لیے اس قانون کو نافذ کرنا پڑے گا اور اس کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ لیکن کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ عوامی دباؤ کی وجہ سے حکومت شاید اب اس قانون کو جاری نہ کرے۔ تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ حکومت نے اس قانون کے خلاف ردعمل دیکھ لیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال سے حکومت نے ایک طرف آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے اس بل کی کابینہ سے منظوری کرائی اور بعد میں یہ سمجھنے کی کوشش بھی کی کہ اس کا رد عمل عوام کی طرف سے کیا ہوسکتا ہے۔ حکومت نے دیکھ لیا ہے کہ عوام نے اس کے خلاف سخت ردعمل دیا ہے کیونکہ اس سے پاکستان کی خودمختاری متاثر ہوگی لہذا میرا نہیں خیال کہ حکومت اس حوالے سے آرڈیننس جاری کرے گی۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: پاکستانی معیشت میں بہتری، کیا یہ سچ ہے؟

کیا کوئی بچاؤ کا راستہ ہے؟

معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کو اس قانون کو نافذ کرنے کے بجائے کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنا چاہیے اور اگر حکومت چاہے تو وہ ایسا کر سکتی ہے۔ قیصر بنگالی کا خیال ہے کہ حکومت غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرے۔ وہ کہتے ہیں، ''ہمارے ملک میں کئی اشیا بڑے پیمانے پر درآمد ہو رہی ہیں، جن کو درآمد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میری سمجھ سے باہر ہے کیوں ہم کتوں، بلیوں اور دوسرے پالتو جانوروں کے لیے خوراک، ادویات اور شیمپوز درآمد کررہے ہیں۔ تمام غیر ضروری درآمد کو بند کرنا چاہیے۔ دفاعی اخراجات میں کمی کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک اور دوسرے حکومتی اداروں میں جو آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں کے لوگ ہیں ان کو بھی فارغ کرنا چاہیے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں