1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامی یا سیکولر پاکستان؟

23 مارچ 2023

پاکستان کی پچھتر سالہ سیاسی تاریخ اور سماجی ڈھانچے کی تکمیل کے مراحل میں ایک سوال، جو ہمیشہ مختلف حلقوں میں زیر بحث رہا ہے، وہ ہے ریاستی نظام کیسا ہو اور اس نظام کی ہئیت کیسی ہو؟

https://p.dw.com/p/4P8DF
DW Urdu Bloger Swera Khan
آمنہ سویراتصویر: Privat

آیا پاکستان کو ایک مذہبی اسلامی ریاست ہونا چاہیے یا ایک سیکولر ریاست؟ اس پر مختلف طبقات کی مختلف آراء ہیں۔ لفظ ’’سیکولر‘‘ کے معنی اور تاریخ کے متعلق ایک خاکہ، جو ہمارے ذہنوں میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ سیکولر کا مطلب ’’لا دینیت‘‘ یا ایسا نظام، جو کہ مذہب مخالف ہے۔ 

حالاں کہ یہ مذہب کے خلاف نہیں بلکہ ہمہ گیریت کا نظام ہے۔ یہ اپنے مذہب اور فرقے کے علاوہ سماج کی باقی تمام اکائیوں کو ایک نظر سے دیکھنے کا ریاستی آئینہ ہے۔ 

سیکولرزم کی تاریخ کا سب سے اہم پڑاؤ انقلاب فرانس ہے، جب وہاں چرچ اور بادشاہت کے اختیارات پر سوالات اٹھے۔ پھر انہی سوالات سے تحریک اٹھی اور تحریک سے بادشاہ کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ اس تحریک کا ثمر تین الفاظ تھے۔

آزادی 

برابری اور 

اجتماعیت  

اس انقلاب سے دنیا میں ایک نئے نظام کی امید پیدا ہوئی۔ ایک ایسا نظام، جو فرد کی آزادی پر مبنی ہو۔ اجتماعیت سے انفرادیت تک کا سفر، آقا و غلام کے رشتے سے برابری تک کا سفر۔ 

پاکستان اپنے قیام کے فوراً بعد اپنی اسلامی ریاست کے نظریہ پر کار بند ہو گیا۔ سن انیس سو انچاس میں قرار داد مقاصد آئی، جس میں اقتدار اعلٰی کی تعریف اس مذہبی گروہ کی ذمہ داری قرار پائی، جو خود بھی بنیادی عقائد پر متفق نہیں ہے۔ 

آج کے جدید دور میں کوئی ایسی ریاست نہیں، جو ترقی یافتہ بھی ہو اور مذہبی ریاست بھی ہو۔ ہیومن ڈویلمپنٹ انڈیکس کے مطابق تمام ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں وہی ممالک ہیں، جہاں لبرل اکانومی ہے۔ ریاست اور مذہب کا تعلق نہیں، اقلیت اور اکثریت نامی قوانین نہیں۔

حتیٰ کہ مذہبی ریاست سعودی عرب وغیرہ بھی اب اپنا قبلہ درست کر کے اپنی ریاست میں جدید سیکولر اصلاحات کا نفاذ کر رہی ہے۔ 

دوسری طرف پچھتر سالوں میں پاکستان میں اسلام کے نام پر ہر قانون بنایا اور نافذ کیا گیا۔ لیکن آج بھی پاکستانی ریاست اپنی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام ہے۔ آئے دن احمدیوں کے خلاف کوئی نا کوئی کریک ڈاون ہوتا ہے یا ہندو کم سن بچیوں کی جبری گمشدگی کے واقعات سامنے آتے ہیں۔

ریاست میں اقلیت کے ساتھ ساتھ اب اکثریت بھی اپنی مذہبی شناخت کو لے کر محفوظ نہیں۔ 

پاکستان میں تقریباً دنیا کے تمام اہم مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔ اسلام کے اندر کئی مسالک ہیں، جن کی تشریح ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔

لسانی اور دیگر گروہوں کا تنوع ایسا ہے کہ ہم ان سب کو ایک مذہبی تشریح کے آئینی بند و بست کے تحت نہیں جوڑ سکے اور جتھے کو قوم بنانے میں ناکام رہے۔

 اس کی وجہ قبولیت نہیں بلکہ تہذیب کا فقدان ہے۔ جہاں قبولیت نہ ہو، وہاں عدم برداشت، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ہی چلن ہوتا ہے اور اس کلچر کو صرف سیکولر نظام ہی بدل سکتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔