1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام دنیا میں بحران سے دوچار ہے، فرانسیسی صدر

2 اکتوبر 2020

صدر ایمانویل ماکروں نے کہا ہے کہ فرانس جیسے سیکولر ملک میں مسلم انتہا پسندوں کی طرف سے ایک 'متوازی معاشرہ‘  قائم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/3jL7d
Frankreich Les Mureaux | Rede Präsident Macron
تصویر: Ludovic Marin/Reuters

جمعے کو پیرس کے مغربی نواح میں ایک اہم خطاب میں انہوں نے کہا کہ 'اسلام اس وقت دنیا میں ایک بحران سے دوچار ہے‘۔ تاہم انہوں نے کہا کہ فرانسیسی جمہوریہ میں بیرونی مداخلت سے پاک 'روشن خیال اسلام‘ کی بہت گنجائش موجود ہے۔

فرانسیسی صدر نے کہا کہ ان کے ملک میں کہیں بھی کسی کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ مذہب کا سہارا لے کر ایک ایسا علحیدہ متوازی معاشرہ بنانے کی کوشش کرے جو فرانس کی اقدار سے متصادم ہو۔

فرانس میں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے، جہاں لگ بھگ 60 لاکھ مسلمان بستے ہیں۔ بیشتر مسلم خاندان پرامن اور اعتدال پسند ہیں۔

حکومت کے مجوزہ قانون پر وہاں مسلم برادری رہنماؤں میں خدشات ہیں کہ اس سے 'اسلاموفوبیا‘ اور ان کے خلاف تعصب کو مزید ہوا ملے گی۔

Frankreich Proteste Solidiarität mit Rohingyas in acMyanmar
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/J. Mattia

انتہاپسندی کے خلاف کریک ڈاؤن

صدر ماکروں کے مطابق مسلم اکثریتی محلوں میں مذہبی آزادی کی آڑ میں انتہاپسندی، نفرت اور تشدد کا پرچار کرنے والے فرانس کے لیے خطرہ ہیں۔

انہوں نے اعلان کیا کہ فرانس کے گلی محلوں میں انتہاپسندی روکنے کے لیے حکومت ایک نیا قانون لا رہی ہے۔ حکام کے مطابق اس قانون کے ذریعے مقامی سطح پر مذہبی اور سماجی تنظیموں کے مالی معاملات کی بہتر نگرانی کی جائے گی، انتہا پسندی پھیلانے والے نجی مدارس کے خلاف کارروائی ہوگی اور مذہب کے نام پر بچیوں اور خواتین پر قدغنیں لگانے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔

Antisemitismus Demonstration in Paris
تصویر: picture-alliance/T. Camus

فرانسیسی صدر کے مطابق نئے اقدامات کے تحت فرانس میں پبلک سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین پر حجاب پہننے کی پابندی کو اب نجی شعبے میں بھی لاگو کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگلے سال سے تمام بچوں کے لیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں، اسکول جانا لازمی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کا مقصد تربیت یافتہ شہری پیدا کرنا ہے نہ کہ مذہبی جذبے سے سرشار پیروکار۔  

 مذہبی آزادی یا انتہاپسندی؟

فرانس میں 1905 کے سیکولر قانون کے تحت لوگوں کی اکثریت مذہب اور ریاست کو الگ الگ رکھنے کی حامی ہیں۔

صدر ماکروں کی طرف سے مذہبی انتہاپسندی کے خلاف کڑا موقف ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پیرس میں 2015 کے شدت پسند حملے کے ایک درجن ملزمان کے خلاف حال ہی میں مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی ہے۔

اس حملے کا نشانہ  پیغمبر اسلام کے متنازعیہ خاکے شائع کرنے والا طنزیہ میگزین شارلی ایبدو تھا۔ اس کارروائی میں بارہ افراد ہلاک ہوگئے تھے، جن میں متنازعہ خاکے بنانے والا کارٹونسٹ بھی شامل تھا۔

Frankreich Charlie Hebdo | Tout ca, pour ca
تصویر: Getty Images/AFP

ستمبر میں ملزمان کا ٹرائل شروع ہونے کے موقع پر شارلی ایبدو نے اپنے اظہار آزادی کے حق کا ایک بار پھر مظاہرہ کرتے ہوئے دوبارہ پیغمبر اسلام کے متنازعیہ خاکے شائع کیے۔

اس تازہ اشاعت کے بعد جمعہ پچیس ستمبر کو پیرس میں ایک پاکستانی شخص نے گوشت کاٹنے والے آلے چاپڑ سے لوگوں پر حملہ کیا اور دو افراد کو زخمی کر دیا۔

فرانسیسی تفتیش کاروں کے مطابق اس شخص نے یہ انتہائی اقدام بظاہر پاکستان میں ناموس رسالت کے معاملے پر لوگوں میں اشتعال پھیلانے میں ملوث تنظیم تحریک لبیک پارٹی کے رہنماؤں کے جلسوں اور تقاریر سے متاثر ہو کر اٹھایا۔

ش ج، ک م (ڈی پی اے، اے ایف پی)