1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلام آباد: غیر قانونی کچی آبادیوں کے خلاف کریک ڈاؤن

امتیاز احمد22 اپریل 2014

اسلام آباد کے مضافات میں جامنی رنگ کا دوپٹہ لیے مرجان اپنے اُس مکان کے سامنے اُداس کھڑی ہے، جس کو حال ہی میں حکومت کی طرف سے مسمار کر دیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1BlyJ
تصویر: AFP

پاکستانی حکومت امیر دارالحکومت اسلام آباد میں کچی آبادیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر چکی ہے۔ ان کچی آبادیوں میں زیادہ تر افغان مہاجرین اور مسیحی آباد ہیں۔ حکومت کے مطابق یہ آبادیاں غیر قانونی ہونے کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں بھی ثابت ہو رہی ہیں۔

سفید بالوں والی 70 سالہ مرجان نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے کارکنوں نے اس کے معمولی سے گھر کو چند ہی منٹوں میں مسمار کر دیا۔ اپنی سسکیوں بھری آواز میں مرجان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں گزشتہ چالیس برسوں سے یہاں رہ رہی ہوں۔ سی ڈی اے نے مجھے مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ میں ایک بیوہ ہوں۔ میرا خاوند بیس برس قبل انتقال کر گیا تھا اور میرے دو بیٹے بھی وفات پا چکے ہیں۔‘‘

مرجان کا مزید کہنا تھا، ’’میں ایک غریب عورت ہوں، سی ڈی اے والے میری بات کیوں نہیں سنتے؟‘‘

اندازوں کے مطابق اسلام آباد کے مضافات میں دو درجن سے زائد کچی آبادیاں، جنہیں کالونیوں کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، قائم ہو چکی ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں، جو اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں کوئی گھر کرائے پر لینے کی سکت نہیں رکھتے اور نتیجے کے طور پر خود ہی کوئی چھوٹا سا کچا گھر تعمیر کر لیتے ہیں۔ زیادہ تر ان کچی بستیوں میں نہ تو بجلی کی سہولت موجود ہوتی ہے، نہ گیس کی اور نہ ہی پانی کی۔

سی ڈی اے کی لسٹ کے مطابق اس طرح کی 14 کچی بستیاں غیر قانونی ہیں اور انہیں مسمار کر دیا جائے گا۔ ان کچی بستیوں کے مکینوں کو نہ تو کوئی معاوضہ دیا گیا ہے اور نہ ہی کہیں اور رہنے کے لیے کوئی چھت فراہم کی گئی ہے۔

مرجان جس کچی بستی میں رہتی ہے، اسے اسلام آباد کی فروٹ منڈی میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد مسمار کیا گیا۔

٫شہر کو یہی چلا رہے ہیں‘

پرویز مسیح بھی اسلام آباد کے مضافات میں مسیحیوں کی ایک کچی بستی میں رہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کمیونٹی خوفزدہ ہے۔ آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اس کا کہنا تھا، ’’ہمارے پاس نقل مکانی کر کے کہیں اور جانے کے لیے نہ تو کوئی جگہ ہے اور نہ ہی کوئی سرمایہ۔ اگر حکومت ہمیں کوئی دوسری جگہ دے بھی دے تو ہمارے پاس گھر کی تعمیر کے لیے پیسے نہیں ہیں۔‘‘

آل پاکستان کچی آبادی الائنس کے چیئرمین عاصم سجاد کا کہنا ہے کہ یہی وہ غریب لوگ ہیں، جو اسلام آباد کی اشرافیہ کے لیے نوکروں، باورچیوں اور ڈرائیوروں کے طور پر کام کر رہے ہیں، ’’ان کا تعلق محنت مزدوری کرنے والی آبادی سے ہے۔ یہی لوگ ہیں جو اس شہر کو چلا رہے ہیں۔ یہ مزدور ہیں، صفائی کا کام کرتے ہیں، کھانا پکاتے ہیں، ڈرائیوری کرتے ہیں۔‘‘

عاصم سجاد کے مطابق کچی بستیوں کو مسمار کرنا مسئلے کا دیرپا حل نہیں ہے، ’’فرض کریں تمام بستیاں مسمار کر دی جاتی ہیں۔ ایک ماہ کے اندر اندر یہ دوبارہ کسی نہ کسی صورت میں واپس آ جائیں گے، یہ لوگ کہیں غائب نہیں ہو جائیں گے۔‘‘