1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی سیاحوں کی پہلی پرواز دبئی میں لینڈ کر گئی

9 نومبر 2020

سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد اسرائیلی سیاحوں کو لے کر فلائی دبئی کی پہلی پرواز متحدہ عرب امارات پہنچ چکی ہے۔ فلائی دبئی نامی اس ایئرلائن نے سعودی عرب کی فضائی حدود کا استعمال کیا۔

https://p.dw.com/p/3l3kW
Symbolbild Passagiermaschine in Russland abgestürzt
تصویر: Reuters/A. Jadallah

سفارتی معاہدے کے بعد یہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات معمول پر لانے کی تازہ ترین کوشش ہے۔ فلائی دبئی کی پہلی پرواز اسرائیلی سیاحوں کو لے کر گزشتہ روز شام کو دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اُتری۔ اس ایئرلائن نے اتوار کی صبح ایک بوئنگ طیارہ ان مسافروں کو لینے کے لیے تل ابیب بھیجا تھا۔

دبئی کی بجٹ ایئرلائن فلائی دبئی نے چند روز پہلے ہی تل ابیب کے لیے براہ راست پروازوں کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد یہ پہلی باقاعدہ تجارتی سروس ہے۔

ویزہ فری انٹری کا معاہدہ

 جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یہ ایئرلائن ہر ہفتے چودہ پروازیں چلائے گی۔ روزانہ ایک پرواز تل ابیب جائے گی اور وہاں سے واپس آئے گی۔ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات براہ راست پروازوں میں ویزہ فری انٹری کا معاہدہ بھی کر چکے ہیں۔ مصر اور اردن کے بعد متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا تیسرا عرب ملک تھا۔

متحدہ عرب امارات کے سخت اسلامی قوانين ميں نرمياں: غير شادی شدہ جوڑے کا ساتھ رہنا و شراب نوشی جائز

فلائی دبئی کی یہ پرواز سعودی عرب کی فضائی حدود استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ خلیج فارس کے اوپر سے گزر کر دبئی پہنچی ہے۔ حکام نے اسرائیلی سیاحوں کی آمد کا مقصد دبئی میں سیاحت کی صنعت کو فروغ دینا بتایا ہے، جسے کورونا وباء کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا ہے۔ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین حال ہی میں دیگر پروازیں بھی آتی جاتی رہی ہیں لیکن ان کا مقصد تاجروں اور حکومتی شخصیات کو لانا اور لے جانا تھا۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین پس پردہ تعلقات تو ایک عرصے سے ہیں لیکن باقاعدہ طور پر سفارتی تعلقات ابھی چند ہفتے قبل ہی قائم کیے گئے ہیں۔

اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بدلے امریکا نے متحدہ عرب امارات کو F-35 جنگی طیارے فروخت کیے ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں فلسطین کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ فلسطینی متحدہ عرب امارات کے اس اقدام کو 'پیٹھ میں خنجر گھونپنے‘ کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔

ا ا / ش ج ( اے ایف پی، ڈی پی اے)