1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل کو ’یہودیوں کی قومی ریاست‘ قرار دینے کا بل منظور

19 جولائی 2018

اسرائیلی پارلیمان نے ملک کو یہودیوں کی قومی ریاست قرار دینے کا متنازعہ بل منظور کر لیا ہے۔ یہ بل عرب شہریوں سے امتیازی سلوک کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے عربی زبان کا درجہ کم ہو کر ’خصوصی زبان‘ کا ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/31iwc
Jerusalem Altstadt Israelische Fahnen
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Widak

اسرائیل کو یہودیوں کی ایک قومی ریاست قرار دینے کا بل دائیں بازو کے قانون سازوں کی طرف سے پیش کیا گیا تھا جبکہ سول آزادی اور بالادستی کی تنظمیوں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی تھی۔ جمعرات  کو ہونے والی ووٹنگ میں پچپن اراکین نے اس بل کی مخالفت جبکہ باسٹھ ممبران نے اس کی حمایت کی۔

اس قانون سازی کو آئینی ترمیم کی طرح بنیادی قانون کا حصہ بنایا جائے گا اور اسرائیلی عدلیہ کی بنیاد بھی اسی پر ہو گی۔  اس بل کی منظوری کے ساتھ ہی ہِبریو زبان کو اسرائیل کی قومی زبان قرار دے دیا گیا ہے اور عربی زبان کے درجے میں کمی کرتے ہوئے اسے ’خصوصی درجہ‘ فراہم کیا گیا ہے۔ ملکی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس بل کی منظوری کو ’صیہونیت کی تاریخ میں ایک تاریخی لمحہ قرار دیا ہے۔‘‘

Israel Tel Aviv Protest gegen Nationalstaatsgesetz
دوسری جانب شہری آزادی کے گروپوں اور عرب اسرائیلوں نے اس بل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہےتصویر: Getty Images/AFP/J. Guez

دوسری جانب شہری آزادی کے گروپوں اور عرب اسرائیلوں نے اس بل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس بل کی مخالفت کرنے والے اپوزیشن قانون سازوں کا بھی کہنا تھا کہ اس طرح اسرائیل کے جمہوری کردار کو یہودی کردار میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور اس کی قیمت ملکی اقلیتوں کو چکانا پڑے گی۔

اسرائیل میں سول رائٹس ایسوسی ایشن کا کہنا تھا، ’’یہ بل دیگر اقلیتوں کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں نسل پرستانہ ریوں کے راستے کھولتا ہے۔‘‘ اسرائیل کی نو ملین آبادی میں سے عرب اسرائیلیوں کی تعداد تقریبا بیس فیصد ہے۔ ایک عرب قانون ساز احمد الطیبی کا کہنا تھا، ’’یہ اسرائیل میں جمہوری اصولوں کا خاتمہ ہے۔‘‘ اسی طرح عرب جوائنٹ لسٹ کے سربراہ ایمن عودہ کا سیاہ پرچم لہراتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ ایک برا قانون ہے۔‘‘ انہوں نے بھی اسے جمہوریت کے خاتمے سے تعبیر کیا ہے۔

ا ا / ع ح