1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کی تفتیش مسترد کر دی

9 اپریل 2021

اسرائیل نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے یہ کہتے ہوئے تعاون نہ کرنے کی تصدیق کی ہے کہ اسے اسرائیلی حکام کے خلاف تفتیش کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/3rklb
Gaza Streifen Baby bei der Ruine eines palästinensischen Hauses
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa

اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے آٹھ اپریل جمعرات کے روز کہا ہے کہ ان کی حکومت فلسطینی علاقوں میں ہونے والے ممکنہ جنگی جرائم سے متعلق بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے تحقیقات میں تعاون نہیں کرے گی۔

نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہیگ میں واقع اس عالمی عدالت کو اسرائیل کے خلاف، ''تحقیقات شروع کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔''

اس بیا ن کے مطابق، ''اسرائیل قانون کی حکمرانی کا پابند ہے اور وہ اپنے خلاف کسی بھی ذرائع سے عائد کیے جانے والے الزامات کی خود تحقیقات جاری رکھے گا،  اور اسے امید ہے کہ ٹریبونل اسرائیل کے اختیارات اور اس کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرنے سے باز رہے گا۔''

اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کو جمعے کے روز ایک با ضابطہ خط لکھ کر اپنے اعتراضات سے اسے آگاہ کرے گا۔ بدھ کے روز نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں عدالت کے فیصلے کو ''مضحکہ خیز'' بتایا تھا۔

آئی سی سی کن امور کی تحقیقات کر رہی ہے؟

اسرائیل نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کو نہ تو کبھی تسلیم کیا اور نہ ہی وہ اس کا رکن نہیں ہے اس لیے اس کا موقف یہ ہے کہ عدالت کو ان کیسز کی سماعت کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چونکہ فلسطین کوئی خود مختار ریاست نہیں ہے اس لیے وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمہ کرنے کی مجاز نہیں ہے۔

لیکن ہیگ میں واقع بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کا کہنا ہے کہ چونکہ سن دو ہزار پندرہ کے ایک معاہدے کے تحت اقوام متحدہ

 نے فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے اس لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت کو اس کے کیسز کی سماعت کا اختیار ہے۔

 آئی سی سی کا موقف ہے کہ سن 1967  کی جنگ کے بعد جن فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہے، وہ علاقے اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور ایسے علاقوں سے متعلق بین الاقوامی فوجداری عدالت تحقیقات کر سکتی ہے۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت کی وکیل فاتو بن سوڈا کا کہنا ہے کہ سن 2014 کے دوران غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج نے جو کارروائیاں کی تھیں، اس سے متعلق جنگی جرائم کی تحقیقات کی 'معقول بنیاد‘ موجود ہے۔انہوں نے اس کے لیے اسرائیلی فوج اور فلسطینی حماس گروپ کو ممکنہ ذمہ دار بتایا تھا۔

سن 2014 میں اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان ہونے والی لڑائی میں 2251 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے جس میں سے 1462 عام شہری تھے۔ اس لڑائی میں 67 اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہوئے تھے۔

فلسطینیوں کا کیا کہنا ہے؟

فلسطینی اتھارٹی نے آسی سی سی کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عدالت سے تعاون کرنے کو تیار ہے۔ فلسطینی دفتر خارجہ سے وابستہ ایک سینیئر اہل کار عمر اعواد اللہ کا کہنا تھا، ''ہم نے اپنا جواب آئی سی سی کو بھیج دیا ہے۔ فلسطینی متاثرین کو انصاف دلوانے اور اسرائیل کو اس کے جرائم کے لیے جوابدہ بنانے کے مقصد سے عدالت کے ایک رکن ریاست کی حیثیت سے فلسطین کی جانب سے تفتیش میں مکمل تعاون کیا جائے گا۔''

 فلسطین نے سن 2015 میں بین الاقوامی عدالت میں شمولیت اختیار کی تھی اور تبھی سے جنگی جرائم کے کیسز کی تفتیش کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

 امن مساعی کا کیا ہوا؟

اسرائیل نے سن 1967 کی جنگ کے بعد مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ جیسے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ فلسطینی انہیں علاقوں پر اپنی مستقبل کی آزاد ریاست چاہتے ہیں۔ 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے فوج واپس بلا لی تھی تاہم جب حماس نے اس علاقے میں

 اقتدار حاصل کیا تو اس کی ناکہ بندی کر دی تھی۔ 

عالمی برادری ایسے تمام علاقوں کو مقبوضہ علاقہ مانتی ہے جس کا فیصلہ امن مذاکرات کے تحت ہونا ہے۔ لیکن اسرائیل پورے یروشلم کو اپنا علاقہ مانتا ہے اور اسے مستقبل کا اپنا دارالحکومت تصور کرتا ہے۔ اس معاملے میں امن مذاکرات گزشتہ تقریباً دس برسوں سے تعطل کا شکار ہیں۔ 

ص ز/ ج ا  (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)

سترہ سالہ فلسطینی لڑکی کی اسرائیلی جیل سے رہائی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں