1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل ،حماس کے درمیان بڑھتی کشیدگی

عابد حسین21 دسمبر 2008

اسرائیل اور فلسطینی انتہاپسند تنظیم حماس کے درمیان چھ ماہ کے جنگ بندی معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد صور تحال اُس جانب بڑھ بڑھ رہی ہے جس کی بنیاد پر اسرائیل ایک بڑا زمینی آپریشن غزہ پٹی میں شروع کر سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/GKju
آنے والے دِن خاص ًطور سے غزہ پٹی میں انتہاپسند حماس کی قیادت کے لئے اہم ہیں کہ وہ کس انداز میں اپنی پریشان حال عوام کی بھلائی کے لئے سوچتے ہیں۔تصویر: AP

اسرائیل اور فلسطینی انتہا پسند تنظیم حماس کے درمیان مصر کی ثالثی میں طے پائے جانے والی جنگ بندی کے ختم ہونے سے قبل ہی راکٹ داغنے کے سلسلے سے پتہ چل گیا تھا کہ جنگ بندی معاہدے کا مستقبل کیا ہے۔ اسرائیل کی خواہش تھی کہ اِس میں کسی نہ کسی طور توسیع ہو جائے مگر حماس تنظیم کی قیادت نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ توسیع کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اسرائیل جنگ بندی معاہدے کا احترام نہیں کر رہا اور غزہ پٹی پرسخت ناکہ بندی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ ختم کرنے کا عندیہ انتہاپسند تنظیم حماس کے جلا وطن لیڈر خالد مشال نے بھی دیا تھا۔

تازہ حملے:

جمعہ کے دِن معاہدے کے ختم ہونے کے یعد اتوار کے روز بھی جنوبی اسرائیل پرغزہ پٹی سے راکٹ اور مارٹر گولے پھیکنے کا تازہ سلسلہ شروع جاری رہا۔ جس سے چند گھروں کو نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کے کے مطابق اب تک فلسطین علاقے غزہ پٹی سے پچاس کے قریب راکٹ اور مارٹر گولے فائر کئے گئے۔ اسلامی جہاد نامی ایک اور انتہاپسند تنظیم نے بیشتر راکٹ داغنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس کے بعد اسرائیل کی جانب سے جواباً آج میزائیل داغا گیا۔ ایسی ہی ایک اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں ہفتہ کے ایک انتہاپسند فلسطینی ہلاک بھی ہوا تھا۔

Israelischer Prime Minister Ehud Olmert
اولمیرٹ کادیمہ پارٹی کی قیادت چھوڑ چکے ہیں اور وزیر خارجہ سپی لیونی اُن کی جگہ سنبھال چکی ہیں۔تصویر: AP

اسرائیل کے اندراب یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ جنوبی اسرائیل کی آبادی کو خوف و ہراس کی فضا سے نکالنے اور کاروباری مرکز اشکیلون کو غزہ پٹی سے داغے جانے والے میزائیلوں سے بچانے کے لئے ایک بڑی زمینی کارروائی شروع کی جائے۔ اِن آوازوں کے تناظر میں اسرائیل کے وزیر اعظم ایہود اولمیرٹ کسی زمینی یا بڑے اپریشن کو فوری طور پر شروع کرنے کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ اولمیرٹ نے مزید کہا ہے کہ موجودہ صورت حال میں جنگ سے گریز ضروری ہے لیکن اِس پہلُو کو یکسر ختم بھی نہیں کیا جا سکتا۔

اسرائیلی آپریشن اور سیاستدان:

ماہرین کا خیال ہے کہ اولمیرٹ شاید اِس ایکشن کے بارے میں فوری فیصلہ نہ کر سکیں کیونکہ وہ اگلے عام الیکشن کے منتظر ہیں مگر اُن کی پالیسی سے کادیمہ پارٹی اور بڑی حلیف جماعت لیبر پارٹی کو نقصان پہچنے کا احتمال ہے۔ اسرائیل میں عام انتخابات دس فروری کو منعقد کیے جا رہے ہیں۔ اولمیرٹ کادیمہ پارٹی کی قیادت بھی چھوڑ چکے ہیں اور وزیر خارجہ سپی لیونی اُن کی جگہ سنبھال چکی ہیں۔ موجودہ کابینہ کے وزیر دفاع ایہود باراک بھی زمینی آپریشن کا عندیہ دے چکے ہیں۔ موجودہ صورت حال جس رُخ بڑھ رہی ہے اُس کے تناظر میں کسی بڑے فوجی اپریشن کے امکانات کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اولمیرٹ کابینہ کے ایک وزیر Isaac Herzog کہتے ہیں کہ اگر صورت حال ایسی ہی رہی تو فوج کے پاس ایکشن لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔

Lebensmittelpreise ziehen weiter an UN-Hungerhilfe in Palästina
غزہ پٹی میں اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث، بھوک اور ادویات کی کمیابی کے بعد انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔تصویر: AP

انسانی المیے کی صورتحال:

اگر اسرائیل کی جانب سے زمینی ایکشن لیا جاتا ہے تو، اِس ایکشن کے نتیجے میں غزہ پٹی میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کو نقصان پہچنے کا اندیشہ ہے۔ وہاں پہلے ہی، اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث، بھوک اور ادویات کی کمیابی کے بعد انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ اِس کیفیت میں غزہ کی عوام خاصی پریشان ہے۔

اسرائیل کی دائیں بازو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کے لیڈر بینجمن نیتن یاہو بارہا کہہ چکے ہیں کہ اولمیرٹ حکومت اسرائیلی آبادی کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے۔ نیتن یاہو اِس وقت اسرائیل کے اندر، انتخابات میں کامیابی کے حوالے سے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق بقیہ سیاسی جماعتوں پر سبقت حاصل کئے ہوئے ہیں۔

Palästinenser Israel Hamas Exilchef Chaled Maschaal in Damaskus
حماس کے جلاوطن رہنما خالد مشعل فائربندی معاہدے کی توسیع کے حق میں نہیں تھے۔تصویر: AP

فلسطینی سیاست:

دوسری جانب مغربی کنارے میں حکومت کے سربراہ محمود عباس امریکہ میں صدر بُش سے الوداعی ملاقات کے بعد روسی جمہوریہ چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی غیر سرکاری دورے پر پہنچ چکے ہیں۔ وہ 22 دسمبر کو روسی صدر میڈویڈیف سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی صدر اور روسی صدر کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں کیا وہ غزہ پٹی پر پیدا ہونے والی صورت حال کو اپنی گفتگو کے ایجنڈے میں شامل کر رہے ہیں یا نہیں۔ محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو روضینہ کے مطابق عباس کی بُش سے ملاقات میں یہ بات چیت شامل ہونے کی توقع تھی۔ آنے والے دِن خاص ًطور سے غزہ پٹی میں انتہاپسند حماس کی قیادت کے لئے اہم ہیں کہ وہ کس انداز میں اپنی پریشان حال عوام کی بھلائی کے لئے سوچتے ہیں۔