1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسد کو بھاری قیمت چکانا ہو گی، صدر ٹرمپ

8 اپریل 2018

امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ مشرقی غوطہ میں شہریوں کے خلاف مبینہ کیمیائی حملے کی شامی صدر بشار الاسد کو ’بھاری قیمت‘ چکانا ہو گی۔ تاہم ماسکو نے کہا ہے کہ دمشق حکومت نے مشرقی غوطہ میں کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2vgGh
USA | Trump kündigt militärischen Rückzug aus Syrien an
تصویر: Getty Images/J. Swensen

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار آٹھ اپریل کے دن ایک بیان میں خبردار کیا کہ مشرقی غوطہ میں شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کی شامی صدر بشار الاسد کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ ٹرمپ نے بہت سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ایران اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن بھی ’جانور اسد‘ کی حمایت کر رہے ہیں۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں ٹرمپ نے لکھا کہ ’بے حس کیمیائی حملے کے نتیجے میں خواتین اور بچے بھی مارے گئے ہیں‘۔

شام میں مشتبہ کیمیائی حملہ: 100 سے زائد ہلاکتوں کا خدشہ

مشرقی غوطہ، باغیوں کا آخری ٹھکانہ شدید بمباری کی زد میں

جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود غوطہ پر حملے جاری

مشرقی غوطہ میں مزید تیس روز تک فائربندی کے مطالبے کی تجویز

تاہم  اے ایف پی نے روسی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ شامی حکومت نے مشرقی غوطہ کے شہر دوما میں کوئی کیمیائی حملہ نہیں کیا۔ شام میں ثالثی کی کوششوں کے لیے نامزد کردہ خصوصی روسی مندوب میجر جنرل یوری یوٹشینکو نے کہا، ’’ہم ان خبروں کی سخت الفاظ میں تردید کرتے ہیں۔‘‘

ہفتے کے دن دوما میں ہوئے ایک حملے کے نتیجے میں کم ازکم  چالیس شہریوں کے ہلاک ہونے کی خبر ہے جبکہ دس افراد کو سانس لینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں کہ دوما میں اس کارروائی کے لیے زہریلی سارین گیس استعمال کی گئی۔ اس کارروائی کے لیے شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔

اس تازہ پیشرفت پر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ہیدر ناؤورٹ نے کہا، ’’ اگر ان خبروں کی تصدیق ہو جاتی ہے تو عالمی برادری کو فوری طور پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے کی ضرروت ہو گی۔‘‘ انہوں نے اس مبینہ کیمیائی حملے کو ’ہولناک‘ قرار دیتے ہوئے مزید کہا، ’’اسد حکومت اور اس کے حامیوں کو اس حملے کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا تاکہ مستقبل میں ایسی کوئی کارروائی نہ کی جا سکے۔‘‘

 تاہم روسی حکام نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ میجر جنرل یوری یوٹشینکو نے کہا، ’’دوما کے جنگجوؤں سے آزاد کرائے جانے کے بعد ہم فوری طور پر اپنے ماہرین کو وہاں بھیجیں گے اور وہ چھان بین کے بعد واضح کر دیں گے کہ مبینہ کیمیائی حملے کی خبریں من گھڑت ہیں۔‘‘

روسی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی اتوار کے دن جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ کیمیائی حملے کا الزام لگانا ’اشتعال انگیزی‘ ہے۔ اس بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ  ان اطلاعات کی بنا پر اگر شامی فورسز کے خلاف کوئی بھی عسکری کارروائی کی گئی، تو اس کے انتہائی سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

شامی فورسز نے مقامی ملیشیا گروہوں اور روسی عسکری تعاون سے اٹھارہ فروری کو مشرقی غوطہ کی بازیابی کا آپریشن شروع کیا تھا۔ اب تک اس کارروائی کے نتیجے میں کم ازکم سولہ سو شہری مارے جا چکے ہیں۔ شامی فورسز دمشق کے نواح میں واقع  مشرقی غوطہ کے پچانوے فیصد علاقے کا انتظام سنبھال چکی ہیں تاہم باغی ابھی تک مشرقی غوطہ کے سب سے بڑے شہر دوما کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔

ع ب / م م / خبر رساں ادارے