1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسد حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے، حسن روحانی

صائمہ حیدر
9 اپریل 2017

ایرانی صدر حسن روحانی نے گزشتہ ہفتے شامی ائیر بیس پر  امریکی فضائی حملوں کو شامی حکومت کی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اپنے شامی ہم منصب بشار الاسد کی حکومت کی حمایت کرنے کا اعادہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2axDL
Russland Treffen Hassan Rohani mit Putin in Moskau
ایران اور روس کے صدور نے کہا ہے کہ شام میں امریکی جارحانہ اقدامات جائز نہیں ہیںتصویر: Reuters/S. Karpukhin

شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق حسن روحانی نے آج اتوار کے روز شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ ٹیلیفون پر بات چیت میں جمعے کے روز شام پر ہوئے امریکی فضائی حملے کو شامی خود مختاری کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ اسد نے امریکا پر شام میں دہشت گرد گروپوں کے حوصلے بلند کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ ایران شام کی چھ سالہ خانہ جنگی کے دوران شام کو بھرپور فوجی اور اقتصادی امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ ایرانی حکومت  نے نہ صرف تمام مشرقِ وسطی سے اسد حکومت کی حمایت میں لڑنے کے لیے کئی شیعہ ملیشیا کو منظم کیا ہے بلکہ پاسدارانِ انقلاب کے فوجیوں اور افسران کو بھی بھیجا ہے۔

 دوسری جانب  ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے روسی ہم منصب  روسی صدر ولادیمیر پوٹن  سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے اور دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کا اظہار کیا ہے کہ  شام میں امریکی جارحانہ اقدامات جائز نہیں ہیں اور یہ کہ  ایسی کارروائیاں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ کریملن نے آج بروز اتوار بتایا ہے کہ ان دونوں رہنماؤں نے شام کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور مستقبل کی حکمت عملی کو زیر بحث لائے۔ دونوں رہنماؤں نے ادلب میں کیمیائی حملے کے بارے میں آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ 

Syiren Präsident Bashar al-Assad Interview
امریکا کے مطابق شام میں میزائل حملے صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر شامی باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں کیے گئےتصویر: Reuters

اُدھر اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر نکی ہیلی نے کہا ہے کہ مشتبہ کیمیائی حملے کے بعد شامی صدر بشار الاسد مزید اقتدار میں نہیں رہ سکتے ہیں۔  ہیلی کے بقول اسد کی موجودگی میں شام میں قیام امن ممکن نہیں ہے۔گزشتہ ہفتے باغیوں کے زیرقبضہ علاقے خان شیخون میں کیے گئے اس کیمیائی حملے کے نتیجے میں ستاسی افراد مارے گئے تھے، جن میں متعدد بچے بھی شامل تھے۔ واشنگٹن نے اس کارروائی کے لیے شامی حکومت کو قصوروار قرار دیا ہے جبکہ جوابی کارروائی کے طور پر اس چھ سالہ خانہ جنگی میں پہلی بار براہ راست ایک شامی ایئر بیس پر میزائل بھی داغے ہیں۔ ہیلی کے بقول اسد کی موجودگی میں شام میں قیام امن ممکن نہیں ہے۔

امریکی حکومت کا موقف ہے کہ شام میں میزائل حملے شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر شامی باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں کیے گئے تاہم دمشق حکومت نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔