1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ارمان لونی کی بہن اور عثمان کاکڑ کی بیٹی

27 جون 2021

عثمان کاکڑ اپنی مٹی اوڑھ کے سو گئے ہیں۔ سوئے کہاں ہیں، لگتا ہے ایک انگڑائی لی ہے اور زمانے کو جگا دیا ہے۔ اِس خرابے میں یہ مرتبے یونہی کسی کو نہیں مل جاتے۔

https://p.dw.com/p/3vdRT
DW Urdu Blogger Farnood Alam
تصویر: Privat

ایسا تب ہوتا ہے، جب لہجے سے مٹی کی مہک آتی ہے اور سیاست دان آخری دم تک کارکن ہوتا ہے۔ عثمان کاکڑ ایک عالم فاضل شخص تھے۔ یہ بات ان کے جھکے ہوئے کندھوں سے بھی جھلکتی تھی۔ وہ ایک نفیس انسان تھے۔ اختلاف بھی کرتے تھے تو لفظ کا انتخاب ستھرا کرتے تھے۔ اونچے سُروں میں بات کرتے تو گاہے اس میں مسکراہٹ کے کچھ رنگ بھی شامل کر دیتے تھے۔ وہ احباب کے گلدستے میں بندش کی گرہ بھی تھے۔ گلدستے کی ہر شاخ اور ہر پتی کو مطمئن رکھنا جانتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ قوم اپنی سیاسی جماعت اور اپنے فرقے  کو نہیں کہتے۔ قوم کے دائرے میں وہ فرد بھی آتا ہے، جو فکر و نظر میں ہم سے مختلف ہوتا ہے۔ ایسا سوچنے والے لوگ مشترکات ڈھونڈتے ہیں اور تنازعات سے دور رہتے ہیں۔ یہ لوگ اختلاف کے گرداب سے اتحاد کا سفینہ سہولت کے ساتھ نکال کے لے جانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ عثمان کاکڑ رُکے اور سوچا کہ جانی خیل سے لے کر بندر عباس تک پھیلے ہوئے لٹے پھٹے انسانوں کے سارے غم اگر نچوڑ لیے جائیں تو ایک متفقہ نقطہ کیا نکالا جا سکتا ہے۔ انجامِ کار وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے بیچ کوئی رشتہ اگر ہے تو وہ درد کا رشتہ ہے۔ عثمان کاکڑ نے درد کو نظریہ کر لیا۔ اس حد تک کر لیا کہ وہ ان کی آنکھ میں، لہجے میں اور مسکراہٹ تک میں اُتر آیا۔

بلوچستان تاریخ کے اندھیر موڑ پر بیٹھا ایک مسافر ہے، جو اپنی ذات میں دریا ہے مگر پیاسا ہے۔ وہ کہہ دے کہ مجھے بلوچستان کہتے ہیں، تو پیاس بڑھتی ہے۔ کہہ دے کہ میں پیاسا ہوں، تو خدا کی مار پڑتی ہے۔ اس جگہ پشتون ہیں تو دکھوں کے مارے ہیں، ہزارہ ہیں تو دل میں سو چھید ہیں۔ ساحلی علاقوں میں تجارتی بھاگم بھاگ ہوتی ہے اور آسودگی راہ پاتی ہے، یہاں کے جزیروں اور ساحلوں پر مگر دھول اڑتی ہے اور سناٹے بولتے ہیں۔ نشاندہی کرنے والوں اور گواہی دینے والوں پر یہاں زمین تنگ ہے۔ سوال اٹھانے کی سزا یہاں اٹھ جانا ہے اور ظاہر ہونے کی جزا گمشدگی ہے۔ بے چینی بال کھولے یہاں کے پہاڑوں پر بے خانماں پھرتی ہے۔ ذہانت، فکر، علم اور سوال شام کے بعد یہاں کے چائے خانوں میں سرگوشیاں کرتے ہیں۔ یہاں کے کتب خانوں میں جانا ایک طرح کا اقبالِ جرم ہے۔ سائیں یہ کیا زندگی ہے اور کیسے مسائل ہیں؟   

یہ مسائل ہیں اور ان مسائل کا حل یہ ہے کہ عوام کی آواز دبا دی جائے۔ گھر کے اندر سے کچھ پیدا گیر اٹھا دیے جائیں اور  بلوچ نمائندہ کہہ کر ان کی شکلیں پردہ سیمیں پر نمایاں کر دی جائیں۔ انہیں وزارتِ اعلی، سینیٹ اور ایوان کا قلم دان سونپا جائے اور کہہ دیا جائے کہ اس سے بلوچوں کی محرومیوں کا ازالہ ہو گا۔ ان کے ساتھ معاہدے کیے جائیں کہ ہم تمہیں مراعات دیں گے اور تمہارا کام یہ ہے کہ تم نے کام نہیں کرنا۔ یہ مراعات یافتہ بے روزگار زمانے میں اپنی سیاہ کاریوں کے نتیجے میں نفرت کا نشان بن جاتے ہیں۔ جب بلوچستان کی محرومیوں کا سوال اٹھتا ہے تو انہی سمگلروں کی طرف اشارہ کر کے کہہ دیا جاتا ہے کہ جس قوم کی قیادت ہی ایسی ہو وہ قوم ہم سے کس بات کا گلہ کرتی ہے۔

بلوچستان کی اصل قیادت کون سی ہے؟ اس سوال کا جواب ہر بار انتخاب والے دن بلوچستان کے پولنگ اسٹیشن دیتے ہیں۔ ان اسٹیشنوں کا سناٹا اور مجموعی ٹرن آوٹ بتاتا ہے کہ عوام ناراض ہیں۔ جبر کا سایہ اتنا گہرا ہوتا  ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ چُپ ہو کر گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ گنتی کے بارہ لوگ باہر آتے ہیں، انہی میں اکثریت اقلیت کر کے جیت اور ہار کے فیصلے سنا دیے جاتے ہیں۔ اس صوبے کا مسئلہ سمجھنا ہو تو تاریخ و فلسفہ یا پولیٹیکل سائنس پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف دو کام کر لیجیے۔ بلوچستان کے وزیر اعلی رہنے والے قدوس بزنجو کے ووٹ گن لیجیے اور عثمان کاکڑ پر گُل پاشی کرنے والے ہاتھ شمار کر لیجیے۔ 

عثمان کاکڑ کے تابوت کے ساتھ جو چل رہا تھا، رسمی الفاظ میں اسے قافلہ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن کیا اچھا نہیں ہے کہ اسے بلوچستان کہہ لیا جائے۔ درد کہا جائے اور درد کی شدت کہا جائے۔ کرب کہا جائے اور کرب کی انتہا کہا جائے۔ درد رشتے داری نہیں دیکھتا، ترجمانی دیکھتا ہے۔ اسی بلوچستان میں پرسوں ایک سابق بلوچ وزیر اعظم کا تابوت پہنچا تھا۔ اسی بلوچستان سے کل ایک عام پشتون رہنما کا جنازہ بھی گزرا ہے۔ دونوں میں کوئی فرق نکلا تو فقط ترجمانی کا نکلا ہے۔ بلوچوں نے اپنے عمائدین کو وہ عزت نہیں دی جو بیسیوں اختلافات کے باجود ایک پشتون رہنما کو دے دی ہے۔ ستر برسوں کو محیط اس تفصیل کا خلاصہ فیض سے سنیے! 

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی

تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے      

اس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ہے کہ جو نہیں دیکھنا چاہتے تھے، انہوں نے بھی پلٹ کر دیکھا۔ ایک آنکھ ہزار بار وہ منظر دیکھتی ہے، جس میں ایک نوعمر بچہ سائیکل پر روتا ہوا چلا آتا ہے۔ ایک بلوچ سلوٹ مارتا ہے اور بے ساختہ ایمبولینس روک کر بونٹ چوم لیتا ہے۔ مائیں ثقافتی پہناووں میں نکلتی ہیں اور درد کا حاشیہ بن کر ایک طرف چپ چاپ کھڑی ہو جاتی ہیں۔ پہاڑوں جیسا حوصلہ رکھنے والوں کی آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔ دل تب دہل جاتا ہے، جب بیٹی اپنے باپ کے تابوت پر سر رکھ کر کہتی ہے کہ تمہارے ساتھ جو ہوا میں جانتی ہوں، میں تمہارا انتقام لوں گی۔

بیٹیوں کا انتقام شدید ہوتا ہے۔ یہ بیٹوں کی طرح نقد حساب نہیں چُکاتیں۔ صبر اور استقامت کو رہنما کرتی ہیں اور دل میں انتقام کی لو جلائے رکھتی ہیں۔ تاریخ کا سبق یہ کہتا ہے کہ میاں باقی سب اپنی جگہ، مگر ملک غلام جیلانی کو سولہ سالہ بیٹی عاصمہ جہانگیر کے سامنے لاہور کی سڑک پر  کھینچنا نہیں چاہیے تھا۔ ٹھیک ہے پھانسی دے دیتے، مگر آخری ملاقات میں بھٹو اور بے نظیر کے بیچ سلاخیں حائل نہیں کرنی چاہیے تھیں۔ شیخ مجیب پر قاتلانہ حملہ ایک بات ہے، مگر بیٹی کے سامنے باپ کا خون میں تڑپ کر جان دینا بالکل اور بات ہے۔ مظالم تو جنگ کا حصہ ہیں، مگر غضب یہ ہوا کہ کابل کے چوراہے پر جب ڈاکٹر نجیب کو لٹکایا گیا تو یہ منظر دو معصوم بیٹیوں نے بھی دیکھ لیا۔

 عاصمہ جہانگیر کے انتقام سے ''عاصمہ جیلانی بنام وفاق پاکستان‘‘ جیسے قانونی حوالے نے ہی جنم نہیں لیا، مزاحمت کے ایک واضح مزاج نے بھی فروغ پایا۔ بی بی کے انتقام نے پہلے ہی ہلے میں امیر المومنین کے نو رتنوں کو نگل کر جمہوریت کو ہمیشہ کے لیے بہترین انتقام کا درجہ دے دیا۔ پچیس برس لگے، مگر باپ پر گولیاں چلانے والے سارے ہاتھ ایک ایک کر کے حسینہ واجد نے اجل کے سپرد کر دیے۔ ڈاکٹر نجیب کی بیٹیاں کیا سوچ رہی ہیں، یہ جاننے کے لیے ان کی نظموں کے ترجمے تلاش کیجیے اور پڑھیے۔ ان نظموں میں کہیں اشتعال ہے اور نہ تشدد کا حوالہ ہے۔ گفتگو سے نہیں، بخدا ان کی خاموشیوں سے ڈر لگتا ہے۔ بے نیازی سے ایک طرف  بیٹھ کر جب وہ مصوری کر رہی ہوتی ہیں تو لگتا ہے جیسے کہہ رہی ہوں، افغانستان کی بھٹی میں دنیا نے لوہا جتنا گرم کرنا ہے کر لے، آخری چوٹ تو بیٹیاں ہی لگائیں گی۔ 

موت اپنا طریقہ واردات بدل کر کوئٹہ کی گلیوں میں نکلی ہوئی ہے۔ علم اور فراست کو نگل جاتی ہے اور ثبوت مٹا دیتی ہے۔ ایک پرانی غلطی مگر اب بھی دوہرا رہی ہے۔ ارمان لونی کے پیچھے بیٹی جیسی بہن اور عثمان کاکڑ کے پیچھے بیٹی چھوڑ کر جا رہی ہے۔