1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آٹھ ارب پتیوں کے پاس اتنی دولت، جتنی 3.6 ارب انسانوں کے پاس

علی کیفی ایسوسی ایٹڈ پریس
16 جنوری 2017

برطانوی فلاحی تنظیم آکسفیم کے ایک تازہ جائزے کے مطابق دنیا بھر میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج ڈرامائی طور پر بڑھتی جا رہی ہے اور صرف آٹھ ارب پتی شخصیات اتنی زیادہ دولت کی مالک ہیں، جتنی کہ 3.6 ارب انسانوں کے پاس ہے۔

https://p.dw.com/p/2VqyQ
Pakistan Kinder suchen Plastik in einem Kanal in Peschwar
پاکستانی شہر پشاور میں بچے ایک نالے میں تیرتے کوڑے میں سے پلاسٹک اکٹھا کر رہے ہیںتصویر: Reuters/K. Parvez

غربت کے خاتمے کے لیے سرگرم عمل اس تنظیم کا یہ جائزہ پیر سولہ جنوری کو جاری کیا گیا ہے۔ اس جائزے کے مطابق دنیا کے امیر ترین افراد اور عالمی آبادی کے غریب ترین نصف حصے کے درمیان خلیج اُس سے بھی زیادہ وسیع ہے، جتنا کہ اب تک خیال کیا جا رہا تھا۔

یہ جائزہ سوئٹزرلینڈ کے تفریحی مقام ڈیووس میں پیش کیا گیا ہے، جہاں عالمی اقتصادی فورم کا سینتالیس واں سالانہ اجتماع سترہ جنوری منگل کے روز سے شروع ہو رہا ہے اور بیس جنوری تک جاری رہے گا۔ دنیا بھر کے چوٹی کے سیاسی اور کاروباری نمائندوں کے اس اجتماع کے موقع پر اس تنظیم کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ دنیا کے امیر  اور غریب انسانوں کے درمیان خلیج ایک سال پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی ہو چکی ہے اور یہ کہ عالمی رہنماؤں کو اس خلیج کو کم کرنے کے لیے محض زبانی جمع خرچ سے کہیں زیادہ آگے جا کر ٹھوس اور مؤثر اقدامات کرنے چاہییں۔

آکسفیم کے مطابق اگر بر وقت عملی اقدامات نہ کیے گئے تو عدم مساوات کے خلاف عوامی غم و غصہ بڑھنے کا عمل جاری رہے گا اور سیاسی نظام کو تہ و بالا کر دینے والے اُس طرح کے واقعات زیادہ تعداد میں دیکھنے میں آئیں گے، جیسے کہ مثلاً امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں یا پھر برطانیہ میں منعقدہ ریفرنڈم میں یورپی یونین کو چھوڑ دینے کے حق میں آنے والے فیصلے کی صورت میں دیکھنے میں آئے ہیں۔

Pakistan Mutter füttert Kind mit Flasche
’’شرم ناک بات ہے کہ دنیا کے ہر دس انسانوں میں سے ایک کو محض دو ڈالر روزانہ سے بھی کم میں زندگی بسر کرنا پڑ رہی ہے‘‘تصویر: Getty Images

یہ جائزہ پیش کرتے ہوئے آکسفیم انٹرنیشنل کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر وِنّی بیانیما نے، جو ڈیووس کے اجتماع میں شرکت کر رہی ہیں، کہا:’’صرف چند ہاتھوں میں اتنی زیادہ دولت کا ہونا اس حقیقت کے تناظر میں شرمناک ہے کہ دنیا کے ہر دس انسانوں میں سے ایک کو محض دو ڈالر روزانہ سے بھی کم میں زندگی بسر کرنا پڑ رہی ہے۔ عدم مساوات لاکھوں انسانوں کو غربت کی دلدل میں دھکیل رہی ہے، یہ ہمارے معاشروں میں شگاف ڈال رہی ہے اور جمہوریت کی جڑیں کمزور کر رہی ہے۔ ‘‘

جہاں اس سال کی رپورٹ میں سوئس بینک کریڈٹ سوئس سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں یہ کہا گیا ہے کہ آٹھ ارب پتیوں کے پاس اتنی دولت ہے، جتنی 3.6 ارب انسانوں کے پاس ہے، وہاں گزشتہ سال کی رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ امیر ترین باسٹھ شخصیات اُتنی دولت کی مالک ہیں، جتنی کہ غریب ترین آدھی عالمی آبادی کے پاس ہے۔

آکسفیم نے اپنے جائزے کی تیاری میں جریدے ’فوربز‘ کی ارب پتیوں کی اُس فہرست سے بھی استفادہ کیا ہے، جو مارچ 2016ء میں جاری کی گئی تھی۔ اس فہرست کے مطابق کرہٴ ارض کے امیر ترین انسان مائیکروسوفٹ کے بانی بِل گیٹس ہیں، جن کی دولت کا اندازہ پچھتر ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ دیگر امیر ترین شخصیات میں فیشن ہاؤس Inditex کے اسپین سے تعلق رکھنے والے بانی امانسیو اورٹیگا، مالیاتی شعبے کی سرکردہ شخصیت وارن بفٹ، امیزون کمپنی کے سربراہ جیف بیزوس، فیس بُک کے خالق مارک ذکربرگ، اوریکل کمپنی کے مالک لیری ایلیسن اور نیویارک کے سابق میئر بلُوم برگ بھی شامل ہیں۔

40 Milliardäre Spenden USA NO FLASH
آٹھ امیر ترین شخصیات میں شامل وارن بفٹ 2006ء میں امیر ترین شخص بِل گیٹس اور اُن کی اہلیہ میلنڈا کی فاؤنڈیشن کے لیے چوالیس ارب ڈالر کے عطیے کا اعلان کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

آکسفیم نے معاشروں میں عدم مساوات کے خاتمے کے لیے دولت مندوں سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے، عوامی خدمات اور روزگار کے شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری، ورکرز کے لیے اچھی اُجرتوں اور تنخواہوں کے معاملے میں حکومتوں کے درمیان زیادہ قریبی اشتراکِ عمل اور امیروں کی ٹیکس چوری کو روکنے جیسی تجاویز پیش کی ہیں۔