1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسیہ بی بی کہاں ہے؟

6 اپریل 2019

مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو رواں برس جنوری میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے حتمی طور پر اس الزام میں بری کر دیا تھا۔ مگر وہ اب بھی ایک آزاد فرد نہیں ہے اور نہ ہی اس بارے میں کچھ معلوم ہے کہ وہ ہے کہاں۔

https://p.dw.com/p/3GOdE
Pakistan Unruhen wegen Freilassung Christin Blasphemie
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/R. Hussain

توہین مذہب کے الزام میں قریب 10 برس جیل میں گزارنے والی آسیہ بی بی کو گزشتہ برس اکتوبر میں پاکستانی سپریم کورٹ نے اس الزام سے بری کرتے ہوئے اسے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف نہ صرف ملک بھر میں شدید مظاہرے کیے گئے بلکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر کر دی گئی۔ تاہم رواں برس جنوری میں سپریم کورٹ نے اس اپیل کو خارج کرتے ہوئے اپنا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

چار بچوں کی والدہ آسیہ بی بی کو جون 2009ء میں اُس وقت حراست میں لے لیا گیا تھا جب اس کی کچھ ہمسایہ خواتین نے اس پر پیغمبر اسلام کی توہین کا الزام عائد کیا۔ اس کے ایک برس بعد ایک ماتحت عدالت نے آسیہ بی بی کو اسی الزام میں سزائے موت سنا دی تھی۔

سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کے بعد آسیہ بی بی کو آزادی مل جانا چاہیے تھی۔ وہ جیل میں بھی نہیں ہے کیونکہ اس کے خلاف کوئی اور مقدمہ موجود نہیں۔ اس کے خلاف توہین مذہب کے الزامات غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ کیا اسے کینیڈا چلے جانا چاہیے جہاں اطلاعات کے مطابق اس کی بیٹیاں موجود ہیں۔ ظاہر ہے آسیہ بی بی کو اب یہ حق حاصل ہے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے آسیہ بی بی کی رہائی کے حتمی فیصلے کو قریب تین ماہ کا وقت گزر جانے کے باوجود ابھی تک واضح نہیں کہ وہ ہے کہاں۔ اطلاعات کے مطابق اسے کسی نامعلوم مقام پر ’حفاظتی تحویل‘ میں رکھا گیا ہے۔ پاکستان کے انسانی حقوق کے گروپوں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ بات پریشان کُن ہے کہ آسیہ بی بی قانونی فتح کے باوجود ابھی تک ’قیدی‘ ہی ہے۔

آسیہ بی بی کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے

’’شدت پسند ابھی بھی بی بی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں‘‘، یہ کہنا ہے عبید رابرٹ کا جو آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح کے دوست ہیں۔ رابرٹ ایک پادری ہیں اور وہ عدالتی کارروائی کے دوران عاشق مسیح کے ساتھ موجود ہوتے تھے۔ رابرٹ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میرے خیال ہے کہ وہ (آسیہ بی بی) ابھی تک پاکستان میں ہی ہے اور ملک سے باہر نہیں گئی۔‘‘ رابرٹ کا کہنا تھا کہ یہ آسیہ بی بی کی سکیورٹی کے حوالے سے اچھی بات نہیں۔

Blasphemie Gesetz in Pakistan FLASH Galerie
توہین مذہب کے الزام میں قریب 10 برس جیل میں گزارنے والی آسیہ بی بی کو گزشتہ برس اکتوبر میں پاکستانی سپریم کورٹ نے اس الزام سے بری کرتے ہوئے اسے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ تصویر: AP

آسیہ بی بی کی حفاظت کے حوالے سے پاکستان کی مسیحی برادری میں بھی تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ’مائنورٹیز الائنس پاکستان‘ آرگنائزیشن کے وائس چیئر مین شمون الفریڈ گِل کے مطابق جب تک آسیہ بی بی پاکستان میں موجود رہے گی اس کی جان کو خطرہ لاحق رہے گا۔

گِل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے اپنے دوستوں اور سول سوسائٹی سے درخواست کی ہے کہ وہ بین الاقوامی اداروں کے علاوہ پاکستانی حکام سے بھی یہ اپیل کریں کہ آسیہ بی بی کی پاکستان سے محفوظ رخصتی کو یقینی بنایا جائے۔

پاکستان کے ’وقار‘ کا تحفظ

بعض پاکستانیوں کا خیال ہے کہ حکومت نے عدالتی فیصلے کے بعد خاموشی سے آسیہ بی بی کو ملک چھوڑنے کی اجازت دے دی تھی۔ ان لوگوں کے مطابق حکام یہ بات عام نہیں کرنا چاہتے کیونکہ اس طرح انہیں مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے رد عمل کا خدشہ ہے۔ تاہم دوسری طرف سے اس معاملے پر حکومتی خاموش کئی افواہوں اور خدشات کو جنم دے رہی ہے۔

ایک حکومتی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مجھے نہیں معلوم کہ آسیہ بی بی ملک چھوڑ چکی ہے یا نہیں۔‘‘

آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک کا بھی جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوری بعد سکیورٹی خدشات کے سبب ہالینڈ چلے گئے تھے، یہی کہنا ہے کہ انہیں بھی آسیہ بی بی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں: ’’اپیل کورٹ کی طرف رہائی کے بعد سے میں آسیہ بی بی یا اس کے شوہر کے ساتھ رابطے میں نہیں ہوں۔ لہٰذا مجھے نہیں معلوم کہ وہ پاکستان میں ہے یا پاکستان سے باہر جا چکی ہے۔ میں اس معاملے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ مجھے اس بارے میں نہ تو کسی نے رابطہ کیا ہے اور نہ ہی کوئی معلومات دی ہے۔‘‘

پاکستانی حکومت کے ان اداروں نے جن کا کام ملک سے باہر جانے والے افراد کے ناموں کا اعداد شمار رکھنا ہوتا ہے، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی فہرست پر آسیہ بی بی کا نام نہیں ہے۔

Deutschland PK Saif-ul-Malook - Anwalt von Asia Bibi
مجھے نہیں معلوم کہ وہ پاکستان میں ہے یا پاکستان سے باہر جا چکی ہے، آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوکتصویر: Getty Images/AFP/Y. Schreiber

دوسری طرف شان تاثیر کا، جو پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے ہیں، کہنا ہے کہ وہ مذہبی رہنما نہیں بلکہ ’کچھ اور لوگ‘ ہیں جو نہیں چاہتے کہ آسیہ بی بی ملک سے باہر جائے۔ خیال رہے کہ سلمان تاثیر کو توہین مذہب کے الزام میں انہی کے ہی گارڈ نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے شان تاثیر کا کہنا تھا، ’’میرا خیال ہے کہ پاکستان کے طاقتور افراد پاکستان کے وقار کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ آسیہ بی بی اگر ملک سے باہر جاتی ہے تو وہ پاکستان کے وقار کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہ مکمل طور پر نا انصافی ہے۔‘‘

شان تاثیر نے آسیہ بی بی کی ملک سے روانگی میں تاخیر کو ’ظالمانہ اقدام‘ قرار دیا: ’’حکومت کے پاس اس بات کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ اس کی آزادی پر قدغن لگائیں۔ حکومت اپنے اختیار سے تجاوز کر رہی ہے۔‘‘

جرمنی میں آسیہ بی بی کے وکیل کی پریس کانفرنس

ا ب ا / ع ح (شامل شمس)