1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسٹريا ميں نئے قوانين، افغان پناہ گزينوں کے ليے مزيد مشکلات

عاصم سليم3 نومبر 2015

مہاجرين کی ريکارڈ تعداد ميں آمد کے تناظر ميں يورپی رياست آسٹريا کی کابينہ نے اپنے ملک کی طرف رخ کرنے والے افغان مہاجرين کی حوصلہ شکنی کے ليے ايک نيا اور کافی سخت بل پيش کيا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Gz1W
تصویر: Imago

نيوز ايجنسی روئٹرز کی ويانا سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق آسٹريا ميں نئے قوانين کے اطلاق سے وہاں موجود اکثريتی افغان مہاجرين کو اپنے اہل خانہ کو بھی آسٹريا بلانے کے ليے تين برس تک انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ يہ بھی لازمی ہو گا کہ وہ اپنے اہل خانہ کو بلانے سے قبل آمدنی کے ذرائع، رہائش کا انتظام اور ہيلتھ انشورنس کے ثبوت فراہم کريں۔ موجودہ آسٹرين قوانين کے تحت وہاں موجود افغان پناہ گزينوں کو صرف ايک برس قيام کے بعد اپنے اہل خانہ کو بلانے کی اجازت ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ مشرق وسطیٰ، شمالی افريقہ اور ديگر خطوں کے شورش زدہ ممالک سے پناہ کے ليے بلقان ممالک سے گزرتے ہوئے يورپ پہنچنے والے مہاجرين کی مغربی يورپ ميں پہلی منزل آسٹريا ہوتی ہے۔ بعد ازاں مہاجرين جرمنی اور ديگر يورپی ممالک کا رخ کرتے ہيں۔

آسٹريا کی وزير داخلہ یوہانا میکل لائٹنر نے ORF نامی ايک مقامی ريڈيو اسٹيشن پر بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’يہ ايک سياسی فيصلہ ہے۔ فيملی ری يونيفيکيشن کے قوانين ميں سختی سے اکثريتی طور پر صرف افغان مہاجرين متاثر ہوں گے۔‘‘ ان کے بقول اس حوالے سے واضح قوانين کا ہونا اور مہاجرين کو آسٹريا ميں ہجرت کے ليے نظر آنے والی کشش کو کم کرنا لازمی ہے۔

رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران آسٹريا ميں قريب چھياليس ہزار مہاجرين نے سياسی پناہ کی درخواستيں جمع کرائی ہيں
رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران آسٹريا ميں قريب چھياليس ہزار مہاجرين نے سياسی پناہ کی درخواستيں جمع کرائی ہيںتصویر: picture-alliance/epa/S. Balaskas

دوسری جانب اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR کے ويانا ميں قائم دفتر کی طرف سے فوری طور پر ان مجوزہ قوانين پر تنقيد کی گئی ہے۔ ادارے کے مطابق ايسے قوانين سے مہاجرين کی ذاتی مشکلات ميں اضافہ ہو گا جب کہ ان کے کامياب انضمام کے امکانات کم ہوں گے۔ افغان مہاجرين کی اکثريت نوجوان مردوں پر مشتمل ہے، جو يورپ ميں سياسی پناہ ملنے کے بعد اپنے اہل خانہ کو يہاں بلانے کے خواہاں ہوتے ہيں۔

یو این ای سی آر آسٹريا کے سربراہ کرسٹوف پنٹر نے اس پيش رفت پر بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہجرت کے قانونی طريقے بند کر ديے جائيں گے، تو لوگ انسانی اسمگلروں کو بروئے کار لاتے ہوئے زيادہ خطرناک راستے اختيار کريں گے۔

يہ قانون نومبر کے وسط تک نافذ العمل ہو جائے گا چاہے ملکی پارليمان دسمبر تک اس کی توثيق نہ بھی کرے۔ آسٹريا ميں اس حوالے سے نئے قوانين کا اطلاق ان افغان مہاجرين پر ہو گا، جنہيں ’سبسڈری پروٹيکشن‘ يا جزوی تحفظ فراہم کيا جائے گا۔ مکمل سياسی پناہ حاصل کرنے والوں پر يہ قوانين لاگو نہيں ہوں گے۔ يہ امر اہم ہے کہ آسٹريا ميں سياسی پناہ کی درخواست دينے والے اکثريتی افغان مہاجرين کو وہاں عارضی قيام کی اجازت دی جاتی ہے۔

رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران آسٹريا ميں قريب چھياليس ہزار مہاجرين نے سياسی پناہ کی درخواستيں جمع کرائی ہيں، جن ميں تقريباً ساڑھے دس ہزار افغان شہريوں کی طرف سے جمع کرائی گئی ہيں۔ آسٹريا ميں سياسی پناہ کے ليے درخواست دينے والوں ميں تيرہ ہزار درخواستوں کے ساتھ شامی شہری سرفہرست ہيں۔ افغان شہری دوسرے نمبر پر ہيں۔