1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’آزاد صحافت کے بغیر شفاف انتخابات ناممکن‘

شیراز راج
5 جولائی 2018

میڈیا پر عائد ’غیر اعلانیہ سنسرشپ‘ کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے جمعرات پانچ جولائی سے ملک گیر ’تحریک آزادی صحافت‘ شروع کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزاد صحافت کے بغیر شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔

https://p.dw.com/p/30tIU
Pakistan Protest in Unterstützung für die Zeitung Dawn News
پاکستان میں پریس فریڈم کے لیے آواز اٹھانے والے کئی ادارے ملک میں میڈیا کی آزادی کی غیر تسلی بخش صورت حال پر تشویش کا شکار ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

پاکستانی صحافیوں کی نمائندہ سب سے بڑی تنظیم پی ایف یو جے (پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس) نے صحافیوں اور صحافتی اداروں کے خلاف دھونس، تشدد، دھمکیوں، اغوا اور اطلاعات کی نشریات و ترسیل پر غیر اعلانیہ پابندیوں کے واقعات، خصوصاﹰ روزنامہ ’ڈان‘ کی فروخت اور ترسیل میں حائل کردہ رکاوٹوں اورحال ہی میں نجی ٹی وی چینل ’جیو‘ کی نشریات روکے جانے جیسے واقعات کے خلاف یہ ملک گیر تحریک شروع کی ہے۔

پاکستان میں صحافت اور صحافیوں کے حقوق، میڈیا کی آزادی اور آمروں کے خلاف نمایاں جدوجہد کرنے والی اس تنظیم کے مطابق، ’ظاہری طور پر نظر نہ آنے والی قوتوں کی طرف سے میڈیا کا گلا گھونٹنے کی ہر کوشش ناکام بنا دی جائے گی۔‘‘

پی ایف یو جے کے ایک اعلامیے کے مطابق، ’’ملک کے تمام پریس کلبوں میں سیاہ جھنڈے لہرائے جا رہے ہیں اور ماضی میں آزادی صحافت کے لیے چلائی گئی تحریکوں، خاص کر فوجی حکمران ضیاالحق کے دور میں چلائی گئی تحریک کی یاد میں تقریبات بھی منعقد کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ نو جولائی کو روزنامہ ’ڈان‘ کے دفاتر کے باہر صحافیوں کا ایک کیمپ اور اسی طرح اسلام آباد میں وفاقی پارلیمان کے باہر بھی ایک ’آزادی صحافت‘ کیمپ لگایا جائے گا۔‘‘

قبل ازیں اس تنظیم کے صدر افضل بٹ اور سیکرٹری جنرل ایوب جان سرہندی نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا، ’’ملک کے مختلف شہروں اور قصبوں بالخصوص کینٹ کے علاقوں میں ’ڈان‘ اخبار کی ترسیل اور فروخت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ پریس ایجنٹوں اور ہاکروں کو ہراساں کیا اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ اقدامات آئین کے آرٹیکل 19 کی صریح خلاف ورزی ہیں، جو آزادی صحافت اور معلومات تک رسائی کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک متعلقہ سرکاری ایجنسی کو فون کر کے زیر عتاب میڈیا اداروں کو مالی ادائیگیاں روک دینے کی ’ہدایات‘ بھی دی جا رہی ہیں۔‘‘

Logo Dawn News
پی ایف یو جے نے ملک کے نگران وزیر اعظم اور چیف جسٹس سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس صورتحال کا نوٹس لیں

پی ایف یو جے نے ملک کے نگران وزیر اعظم اور چیف جسٹس سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس صورتحال کا نوٹس لیں اور حکام کو ہدایات دیں کہ وہ روزنامہ ’ڈان‘ اور دیگر میڈیا اداروں پر دباؤ ڈالنا بند کریں۔ پاکستانی صحافیوں کی اس تنظیم کے مطابق، ’’سرکاری اداروں کی جانب سے آزادی صحافت کے خلاف کیے جانے والے ان غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات پر صحافی بہت تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگر اس صورتحال کو فوری طور پر درست نہ کیا گیا تو پھر سڑکوں پر احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچے گا۔‘‘

ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کے دوران اس تحریک کے حوالے سے میڈیا اداروں اور صحافی تنظیموں کے مابین تقسیم کے خاتمے اور اتحاد کی ضرورت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں افضل بٹ کا کہنا تھا، ’’میڈیا اس وقت تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ لگتا ہے کہ صحافیوں کی صفوں میں اتحاد ناممکن ہے۔ اب یہ تقسیم بہت واضح ہے۔ ایک طرف وہ ہیں، جو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت اس پیشے میں آئے اور دوسری طرف وہ جو آزادی صحافت اور معلومات کے حصول کے آئینی حق کے لیے قربانیوں پر تیار ہیں۔‘‘

آزادی صحافت اور جمہوریت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں افضل بٹ کا کہنا تھا، ’’اگر پاکستانی میڈیا کو آزادی نہیں ہو گی، تو دنیا بھر میں انتخابات کی شفافیت پر انگلیاں اٹھیں گی۔ اگر آئندہ انتخابات کی ساکھ اور پاکستان کے وقار کو قائم رکھنا ہے، تو میڈیا کے خلاف انتقامی اور تادیبی کارروائیاں بند کرنا ہوں گی۔‘‘

Mitglieder des pakistanischen Journalistenverbands (PFUJ)
تصویر: picture-alliance/PPI Images/A. Ahmed

سینئر صحافی مظہر عباس نے اسی سلسلے میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ماضی میں میڈیا پر دباؤ حکومتوں کی جانب سے  اپنے ناقدین پر ڈالا جاتا تھا اور ناقد اداروں کے لیے اشتہارات وغیرہ بند کر دیے جاتے تھے۔ لیکن اس مرتبہ مختلف بات یہ ہے کہ بعض میڈیا اداروں، صحافیوں، کالم نگاروں اور اینکروں کو اس لیے عتاب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ حکومت پر تنقید نہیں کر رہے۔ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ سب کچھ حکومت سے ماورا ہو رہا ہے۔ اگر کسی چینل کو بند کیا جاتا ہے یا کسی اخبار کی فروخت اور ترسیل میں رکاوٹ آتی ہے، تو اس کی بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ لیکن گزشتہ حکومت کی وزیر اطلاعات اور پیمرا کے سربراہ  کو تو یکسر خبر ہی نہیں تھی۔ اب نگران حکومت کو بھی کچھ پتہ نہیں۔‘‘

پی ایف یو جے کی اس تحریک کے بارے میں مظہر عباس نے بتایا، ’’مشکل یہ ہے کہ میڈیا خود تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ صحافیوں، مدیروں اور مالکان کی تنظیمیں مختلف دھڑوں میں تقسیم ہیں اور بہت سے اہم امور پر بھی اتفاق رائے نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ملکی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے اپنی ایک حالیہ پریس کانفرنس میں کئی صحافیوں کی تصاویر دکھائیں اور انہیں گویا بطور ملک دشمن پیش کیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان صحافیوں کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد موجود ہیں، تو ان کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں اور فیصلے عدالتیں کریں۔ یہ ریاست مخالف ’برانڈنگ‘ ہے۔‘‘

ساتھ ہی مظہر عباس کا یہ بھی کہنا تھا کہ میڈیا کو بھی اپنا قبلہ درست کرنا چاہیے۔ 2011 میں جاوید جبار اور جسٹس ناصر اسلم زاہد پر مشتمل دو رکنی کمیٹی نے ایک مفصل رپورٹ پیش کی تھی کہ میڈیا کے حالات کار کو کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس وقت حکومت کی جانب سے ’نوازے گئے‘ صحافیوں کی فہرستیں بھی پیش کی گئی تھیں۔

Journalisten protestieren in Pakistan Pressefreiheit Zensur
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Arbab

ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں سینئر صحافی زاہد حسین نے کہا، ’’پاکستانی میڈیا پر دباؤ ضرور ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ میڈیا کو بالکل ہی منجمد کر دیا گیا ہو۔ 80 کی دہائی والی صورت حال نہیں ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن مزاحمت بھی بہت ہے۔ میڈیا تقسیم ہے اور اس کا ایک حصہ خفیہ ایجنسیوں کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔ ہم بہت برے حالات دیکھ رہے ہیں لیکن صحافی اپنے حقوق کے لیے لڑ بھی رہے ہیں۔‘‘

پاکستانی میڈیا کو درپیش موجودہ صورت حال اور آئندہ انتخابات کے حوالے سے زاہد حسین نے کہا، ’’یہ کہنا غلط ہے کہ ’ڈان‘ اور ’جیو‘ کو مسلم لیگ ن کی حمایت کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ دراصل بعض معاملات پر اسٹیبلشمنٹ بہت حساس ہو چکی ہے، جیسے کہ منظور پشتین کی پختون تحفظ موومنٹ۔‘‘

پاکستان میں انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کی نمائندہ تنظیمیں اور صحافیوں اور پریس فریڈم کے لیے آواز اٹھانے والے کئی ادارے ملک میں میڈیا کی آزادی کی غیر تسلی بخش صورت حال پر تشویش کا شکار ہیں۔ حال ہی میں فوج پر تنقید کرنے والی ایک خاتون صحافی گل بخاری کا اغوا اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم صحافی ماروی سرمد کے گھر میں گھس جانے والے نام نہاد ‘چوروں‘ کی طرف سے ان کے لیپ ٹاپ ساتھ لے جانا ایسے واقعات کا حصہ ہیں، جو اس تشویش میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

صحافیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم سی پی جے (کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس) کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 15 برسوں میں پاکستان میں قریب 150 صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔