1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آخری امریکی صدارتی مباحثہ: بازی کس نے ماری؟

16 اکتوبر 2008

گزشتہ روز نیو یارک میں رپبلکن پارٹی اور ڈیمکوریٹک پارٹی کے صدارتی امیدواروں جان میک کین اور باراک اوباما کے درمیان تیسرا اور آخری انتخابی مباحثہ ہوا جیسے دنیا بھر میں لاکھوں افراد نے دیکھا اور سنا۔

https://p.dw.com/p/FbPD
رائے عامہ کے مختلف جائزوں کے مطابق آخری صدارتی مباحثے کے فاتح باراک اوباما ہیںتصویر: AP

امریکی صدارتی انتخابات میں اب تین ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ ان امریکی انتخابات کو کئی حوالوں سے امریکی تاریخ کے اہم ترین صدارتی اتخابات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک طرف امریکی میں جاری حالیہ مالیاتی بحران ہے تو دوسری طرف خارجہ امور پر بھی امریکہ کو کئی ایک مشکلات کا سامنا ہے جس میں سے ایک افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کے خلاف جنگ ہے۔

Montage Michelle Obama und Cindy McCain
مباحثے میں جان میک کین اور باراک اوباما کی بیگمات نے بھی شرکت کیتصویر: AP / DW


اس مباحثے کا مرکزی موضوع امریکی مالیاتی بحران اور امریکی داخلہ امور تھے۔ مباحثے کو مبصرین نے جان میک کین کا سب سے بہتر مباحثہ قرار دیا ہے تاہم جائزوں کے مطابق زیادہ تر افراد کے مطابق باراک اوباما نے اس مباحثے میں بازی مارلی ہے۔ باراک اوباما نے جان میک کین کو موجودہ امریکی صدر جارج بش کا پیروکار قرار دیا اور کہا کہ شاز و نادر ہی جارج بش اور میک کین کی پالیسیوں میں کوئی فرق دیکھنے میں آیا ہے۔ دوسری جانبان میک نے باراک اوباما کو جواب دیا کہ وہ، یعنی جان میک کین، جارج بش نہیں ہیں اور ان کو چاہیے تھا کہ وہ چار برس قبل جارج بش کے خلاف الیکشن لڑتے۔
دونوں امیدواروں نے صحت، تعلیم اور قومی تحفظ ایسے امور پر کھل کر اس نوّے منٹ کے مباحثے میں بات جیت کی اور ثابت کرنے کی کوش کی کہ دوسرے کے مقابلے میں ان کی پالیسیاں بہتر اور موثر ہیں۔

Senator John McCain
باراک اوباما کی نسبت جان میک کین مباحثے کے دوران مشتعل نظر آئےتصویر: AP


رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق باراک اوباما کو جان میک کین پر ثبقت حاصل ہے۔ مبصرین کی رائے میں حالیہ دنوں میں باراک اوباما کی ذات پر حملوں کو امریکی عوام نے نا پسند کیا ہے اور اس سے جان میک کین کی انتخابی مہم متاثر ہوئی ہے۔ مزکورہ مباحثے میں جان میک کین کو اوباما کو ناک آئوٹ کرنا اشد ضروری تھا تاہم مبصرین کی رائے میں جان میک کین کی جانب سے ایک اچھے مباحثے کے باوجود ایسا نہیں ہوسکا ہے۔