1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سائنسشمالی امریکہ

آئیے ملیے زومبی مینڈک سے

10 جولائی 2021

ایمازون خطے میں ایک نئی نوعِ حیات دریافت ہوئی ہے، یہ ہے زومبی مینڈک۔ مگر یہ بھوتیا مینڈک نہ دیکھنے میں خوف ناک ہے نہ اصل میں۔

https://p.dw.com/p/3wInL
Wissenschaft Neue Froschart Synapturanus zombie im Amazonas entdeckt
تصویر: Antoine Fouquet

گھپ اندھیرا اور شدید بارش، ایسے میں ایک آواز سنائی دیتی ہے اور ایک شخص ہاتھوں سے گیلی زمین کھودنے میں مصروف ہو جاتا ہے اور تب تک کام جاری رکھتا ہے، جب تک یہ انتہائی انوکھی آواز نکالنے والی مخلوق اس کے سامنے نہیں آتی۔ ایک آواز جو آپ نے پہلے کبھی نہ سنی ہو۔

دنیا کا سب سے چھوٹا رینگنے والا جانور دریافت

وہیل مچھلی کی نئی قسم دریافت

اس مخلوق تک پہنچنے کا منظر دیکھیں، تو پہلا تاثر کسی ڈراؤنی فلم کے کسی سین کا ہو گا۔ مینڈک حالاں کہ زومبی موویز جیسا ہر گز نہیں۔ جرمن سائنسدان رافائیل ایرسٹ ایمازون کے جنگلات میں مینڈکوں کی شناخت کے لیے گئے تھے وہاں انہوں نے یہ منظر دیکھا۔ ان کی کوششیں کام آئیں اور یوں وہ ایک نئی نوعِ حیات "زومبی مینڈک" دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ مینڈک نارنجی رنگ کا ہوتا ہے اور اس کا سائز چالیس ملی میٹر یا ڈیڑھ انچ ہے۔ ایمازون کے خطے میں جس رفتار سے جنگلات کاٹے جا رہے ہیں، محققین کا خیال ہے کہ یہ مینڈک ممکنہ طور پر بقا کے خطرے سے دوچار ہو گا۔

ایرنسٹ کہتے ہیں، "ہم نے اس مینڈک کا نام اس کی شکل کے اعتبار سے نہیں، بلکہ محققین کی حالت کے اعتبار سے رکھا ہے۔ انتہائی غیرعمومی آوازیں پیدا کرنے والی چند مخصوص اسپیشیز رات کے وقت متحرک ہوتی ہیں اور ایسے میں محققین ان کی تلاش میں زومبیز کی طرح زمین کھودتے دکھائی دیتے ہیں۔"

رافائیل ایرنسٹ مزید کہتے ہیں، "آپ ان کی آواز سنتے ہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ کوئی نئی نوعِ حیات ہیں۔ اور پھر آپ کو زمین کھودنا ہوتی ہے۔ آپ کیچڑ میں لتھڑ جاتے ہیں، کیوں کہ یہ مخلوقات زیر زمین بستی ہیں اور باہر فقط تب نکلتی ہیں، جب بارش ہو۔"

Wissenschaft Neue Froschart Synapturanus zombie im Amazonas entdeckt | Raffael Ernst
جرمن محقق رافائیل ایرنسٹ نے گویانا کے علاقے میں یہ مینڈک دریافت کیاتصویر: Raffael Ernst

نئی اسپیشیز کی دریافت

ایرنسٹ نے دو برس گویانا میں ایمازون کے برساتی جنگلات میں گزارے۔ اپنی پی ایچ ڈی کے مطالعے کے لیے وہ عام طور پر یہاں اکیلے کام کرتے تھے۔ ان کا اصل ہدف انسانی کارگزاریوں سے مختلف انواع کی حیات پر اثرات کا مطالعہ کرنا تھا۔ اس کے لیے مینڈک ایک مثال تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے یہ مخصوص آواز والا مینڈک دیکھا۔ وہ اس لمحے کو "کچھ جاننے، کچھ دیکھنے اور بے حد خوش قسمت ہونے" سے تعبیر کرتے ہیں۔

اس کے بعد ایرنسٹ نے بین الاقوامی محققین کے ایک گروپ کے ہمراہ اس جانور کے بارے میں مزید جاننے کے سفر کا آغاز کیا۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ جینس سُپٹورانُس سے تعلق رکھنے والی تین مختلف اسپیشیز ہیں۔

کثیرالجہتی خطرات

ایمازون کے جنگلات دنیا کے سب سے بڑے برساتی جنگلات ہیں اور مختلف انواعِ حیات کے اعتبار سے بھی سب سے آگے۔ زیر زمین رہنے والی زیادہ تر مخلوقات کا مسکن بھی یہی خطہ ہے، جن میں مینڈکوں کی ایک ہزار سے زائد اقسام شامل ہیں۔ چوں کہ مینڈک اپنی جلد کے ذریعے سانس لیتے ہیں، اس لیے یہ پانی کے معیار اور ماحول کی تبدیلی کے اعتبار سے انتہائی حساس ہوتے ہیں۔ یعنی زہریلے مادے، جنگلات کی کٹائی، آلودگی یا بیماری کی جانچ کے حوالے سے ان کی حسیات غیرمعمولی ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا بھر میں مینڈکوں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مینڈکوں کی ستر فیصد آبادی ختم ہو چکی ہے۔

نر چوزوں کی تلفی کا عمل ختم؟

ایرنسٹ کہتے ہیں کہ ایمازوں خطے میں بڑھتی انسانی سرگرمیوں، جن میں زیادہ تر غیرقانونی ہیں، نے یہاں جنگلی حیات کی بقا کو خطرات سے دوچار کیا ہے۔ ایمازون خطے میں کان کنی، لکڑی کا حصول، جانوروں کی کھال اور دانتوں کا حصول اور ایسے دیگر محرکات کی وجہ سے جنگلی حیات شدید مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔

ع ت / ع س (ایزابیلا مارٹیل)