9 چیزیں، جو سعودی خواتین اب بھی نہیں کر سکتیں
12 دسمبر 2015فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ایک جائزے میں اُن باتوں کو موضوع بنایا ہے، جن کی سعودی خواتین کو اجازت ہے یا اُنہیں اُن سے منع کیا گیا ہے۔
سعودی حکومت کی پالیسیوں اور ضوابط کے تحت سعودی خواتین کو درجِ ذیل کاموں کی ممانعت ہے:
ڈرائیونگ: سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں خواتین پر اسٹیئرنگ کے پیچھے بیٹھنے کی پابندی ہے۔
سفر: سعودی خواتین اپنے خاندان کے کسی مرد رکن یا سرپرست کی مرضی کے بغیر سفر نہیں کر سکتیں۔
شادی: خاندان کے کسی مرد رکن یا سرپرست کی مرضی کے بغیر سعودی خواتین شادی نہیں کر سکتیں۔
ملازمت: سعودی عرب کی خواتین کے لیے اپنے خاندان کے کسی مرد یا سرپرست کی رضامندی لیے بغیر ملازمت کرنا بھی منع ہے۔
عوامی مقامات پر جانا: سعودی خواتین پر لازم ہے کہ وہ جب بھی باہر جائیں، اُنہوں نے سر سے لے کر پاؤں تک خود کو ایک سیاہ عبا کے ساتھ ڈھک کر رکھا ہو۔
وراثت کا حق: سعودی عرب میں خواتین کو وراثت میں مردوں کے برابر حصہ نہیں ملتا۔
کچھ مخصوص شعبوں میں ملازمت: چند ایک شعبے ایسے ہیں، جن میں سعودی خواتین کے کام کرنے پر پابندی عائد ہے۔
گھلنا ملنا: سعودی خواتین کے لیے عوامی مقامات مثلاً ریستورانوں وغیرہ میں غیر متعلق مردوں کے ساتھ ملنا جُلنا بھی منع ہے۔
طلاق: اس ملک کی خواتین کے لیے طلاق حاصل کرنا اُتنا آسان نہیں ہے، جتنا کہ سعودی مردوں کے لیے۔
... اور یہ ہیں، وہ چیزیں، جو سعودی خواتین کر سکتی ہیں:
ووٹ: سعودی سلطنت میں سرکاری عہدوں کے لیے ایک ہی طرح کے انتخابات ہوتے ہیں اور وہ ہیں، بلدیاتی انتخابات، جن میں خواتین ووٹ بھی ڈال سکتی ہیں اور امیدوار بھی بن سکتی ہیں۔
شوریٰ کونسل: سعودی خواتین اُس شوریٰ کونسل میں بھی بیٹھ سکتی ہیں، جس کے ارکان منتخب نہیں بلکہ مقرر کیے جاتے ہیں اور جو کابینہ کو مشورے دیتی ہے۔
چوٹی کے عہدے: سعودی خواتین کارپوریٹ سیکٹر میں انتہائی اونچے عہدوں پر فائز ہو سکتی ہیں۔
ملازمت: سعودی خواتین نے حکومتی انتظامیہ میں مختلف عہدوں کے ساتھ ساتھ نجی شعبے میں بھی زیادہ سے زیادہ اداروں میں مثلاً بطور وکیل بھی کام کرنا شروع کر دیا ہے۔