1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’2017ء ميں پچاس ہزار عورتيں اہل خانہ کے ہاتھوں قتل ہوئيں‘

8 جولائی 2019

عورتوں پر تشدد اور ان کے قتل کے کئی واقعات ميں متاثرين کے قريبی حلقے ہی ملوث پائے جاتے ہيں۔ يہ مسئلہ دنيا بھر ميں پايا جاتا ہے ليکن ايک تازہ رپورٹ کے مطابق افريقہ اور ايشيا ميں ايسے واقعات کی تعداد بالخصوص نماياں ہے۔

https://p.dw.com/p/3Lk5G
Symbolbild Gewalt gegen Frauen
تصویر: picture-alliance/dpa/K.-J. Hildenbrand

سن 2017 کے دوران دنيا بھر ميں تقريباً پچاس ہزار عورتوں کو ان کے شوہروں، پارٹنرز يا ديگر اہل خانہ نے قتل کيا۔ يہ انکشاف منشيات و جرائم کے انسداد کے ليے سرگرم اقوام متحدہ کے دفتر (UNODC) نے پير آٹھ جولائی کو آسٹريا کے دارالحکومت ويانا سے جاری کردہ ايک رپورٹ ميں کيا گيا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سن 2017 ميں پر تشدد کارروائيوں يا جرائم کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والی عورتوں کی تعداد 87,000 رہی۔

اس رپورٹ کے مطابق کئی کيسز ميں عورتوں کا ان کے اس وقت کے پارٹنرز، سابق پارٹنرز، والد، بھائيوں، ماؤں، بہنوں اور ديگر اہل خانہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ يہ امر اہم ہے کہ شوہروں يا پارٹنرز کے ہاتھوں قتل کے کيسز ميں واردات عموماً اچانک رونما نہيں ہوئی بلکہ عليحدگی کے خوف، حسد، شک اور ديگر وجوہات کی بناء پر طويل جھگڑے کے بعد ہی ايسی کارروائی سامنے آتی ہے۔ ايسے کيسز ميں ديکھا گيا ہے کہ عورتيں قتل سے قبل تسلسل کے ساتھ تشدد کا شکار بھی بنتی ہيں۔

گھريلو تشدد کے سب سے زيادہ جان ليوا واقعات بر اعظم ايشيا ميں ديکھے گئے۔ ايشيائی ممالک ميں سن 2017 کے دوران بيس ہزار عورتوں کو ان کے اس وقت کے پارٹنرز، سابق پارٹنرز، والد، بھائيوں، ماؤں، بہنوں اور ديگر اہل خانہ نے موت کے گھاٹ اتار ديا۔ افريقہ ميں ايسے کيسز کی تعداد انيس ہزار، بر اعظم امريکا ميں آٹھ ہزار اور يورپ ميں تين ہزار رہی۔ اگر بر اعظم کی مجموعی آبادی سے ايسے قتل کے تناسب کا موازنہ کيا جائے، تو براعظم افريقہ عورتوں کے ليے سب سے خطرناک ہے۔

عورتوں کے خلاف تشدد معاشرے ميں پائے جانے والے دقيانوسی خيالات اور 'مرادنگی‘ کے تصور کے سبب پايا جاتا ہے۔ رپورٹ مرتب کرنے والے محققين کے بقول ايسے معاشروں ميں مرد عموماً سمجھتے ہيں کہ وہ جب چاہيں اپنی بيويوں کو جنسی عمل پر مجبور کرنا يا بيويوں پر زور چلانا ان کا حق ہے۔

ع س / ک م، نيوز ايجنسياں