1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخروس

1905ء کا روسی انقلاب، تب کیا ہوا تھا؟

16 اگست 2022

1905ء کے انقلاب سے پہلے روسی سماج میں سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیاں آ رہی تھیں، خاص طور سے بادشاہت کے اختیارات کے خلاف امراء کے نوجوان طبقے میں، جو کہ تعلیم یافتہ تھا اور مغربی تہذیب و افکار سے متاثر ہو رہا تھا۔

https://p.dw.com/p/4Fa8m
Ölmalerei von Ilya Repin Manifest St.Petersburg 1905
تصویر: picture-alliance/akg-images

اس کی خواہش تھی کہ روس کی پسماندگی کو دُور کرنے کے لیے ضروری  ہے کہ اس کو نظام بدلا جائے۔ اظہار رائے پر، جو پابندیاں ہیں، ان کو ختم کیا جائے تاکہ دانشور آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ لبرل اور جمہوری روایات کو قائم کرنا چاہتے تھے۔ مختلف نظریات کے حامی سیاست دانوں نے اپنی پارٹیاں تشکیل کیں، جو روس کی قدیم روایات کے خلاف تھیں۔ ان کے پیش نظر یورپ کا معاشرہ تھا، جہاں سیاسی پارٹیاں انتخاب میں کامیاب ہو کر پارلیمنٹ میں جاتی تھیں اور وہاں عوام کی نمائندگی کرتی تھیں۔ جمہوری ادارے تھے، جو عوامی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتے تھے۔ قانون کی بالادستی تھی اور اس کی نظر میں امیر و غریب برابر تھے۔

تعلیمی اداروں میں سماجی اور نیچرل سائنسز پر تحقیق ہو رہی تھی۔ کسان اور مزدور اپنے حقوق کے لئے ہڑتالیں کر سکتے تھے لہٰذا ان کے پیش نظر روس کو جدید بنانے کے لئے مغرب کی جانب دیکھنا ہو گا۔ جیسا کہ زار پیٹر نے اپنے عہد حکومت میں مغربی ٹیکنالوجی کو اختیار کیا اور اشرافیہ میں مغربی کلچر کو روشناس کرایا۔ اب ضرورت اس بات کی تھی کہ جدیدیت کے فوائد متوسط طبقے سے لے کر عام لوگوں تک پہنچے۔

لبرل، جن اصلاحات کو روشناس کرانا چاہتے تھے، ان کا تعلق دوستی سماج اور کلچر سے بھی تھا۔ مثلاً ان کے مطالبے یہ تھے کہ زرعی اصلاحات ہونی چاہئیں اور کسانوں کو زمین لینی چاہیے۔ وہ بالغ رائے دہی کے قائل تھے مگر عورتوں کو ووٹ کا حق دینے کے خلاف تھے۔

 لبرل طبقے کے یہ افراد قدیم نظام کو یکسر ختم کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ اس میں اصلاح کے حامی تھے کہ پارلیمنٹ اور زار کی انتظامیہ مل کر فیصلے کریں۔ اس لئے لبرل کا رجحان انقلاب کی طرف نہیں اصلاحات کی جانب تھا۔ انہیں اپنے طبقے کے مفادات تو عزیز تھے مگر یہ تھوڑا بہت لوگوں کو بھی دینا چاہتے تھے تاکہ ان میں بے اطمینانی دور ہو سکے۔

پروفیسر مارک شٹائن برگ نے ٹیچنگ کمپنی کی جانب سے روس کی تاریخ پر لیکچر دیتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کا تجزیہ کیا ہے۔ ان پارٹیوں میں نان مارکسسٹ اور مارکسسٹ دونوں پارٹیاں شامل تھیں۔ پاپولر پارٹی کا منشور یہ تھا کہ سب سے پہلے عوام میں تعلیم کو فروغ دیا جائے تاکہ ان میں سیاسی شعور پیدا ہو۔

جب یہ لوگ گاؤں اور دیہات میں گئے تو کسانوں کو تعجب ہوا کہ یہ کون لوگ ہیں، جو انہیں پڑھانے آئے ہیں۔ ان میں اور کسانوں کے درمیان کوئی افہام و تفہیم نہیں ہو سکی۔ اس لئے اپنی تمام کوششوں کے باوجود یہ نوجوان، جس جذبے اور جوش سے اُٹھے تھے، اس میں انہیں ناکامی ہوئی۔ اس کے مقابلے میں سوشلسٹ پارٹی تھی، جو اصلاحات کی بجائے انقلاب کے ذریعے سوسائٹی کو بدلنا چاہتی تھی۔ ان کا نصب العین یہ تھا کہ ریاست پر قبضہ کیا جائے، پرانے نظام کو ختم کیا جائے۔

 مزدورں، کسانوں اور محروم طبقے کے لوگوں کو ان کے حقوق دیے جائیں۔ یہ سرمایہ داری کے بھی خلاف تھے اور مزدوروں کو یونین بنانے اور ہڑتالیں کرنے کی پوری پوری آزادی دینا چاہتے تھے۔روس کی اس سیاسی صورت حال میں سوسائٹی کا ہر طبقہ غیر مطمئن تھا۔

اس موقع پر روسی حکومت نے جاپان سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے دو مقاصد تھے۔ ایک تو جنگ کے دوران لوگوں میں حب الوطنی کے جذبات کو پیدا کیا جائے اور دوسرے جاپان کو شکست دے کر کوریا اور منچوریہ میں روسی اثر ورسوخ کو بڑھایا جائے۔ روسی حکومت کا خیال تھا کہ جاپان کو شکست دینا آسان ہے۔

 وہ حقارت سے جاپانیوں کو پہلے بندر کہا کرتے تھے لیکن جب 1904ء میں انہیں جاپان نے شکست دی تو روسی عوام کے لئے یہ بڑا حادثہ تھا۔ روس، جو ایک بڑی سلطنت تھا، اس نے ایک چھوٹے مشرقی ملک سے شکست کھائی۔ دوسری جانب ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کو، جو اس وقت مغربی ملکوں کی کالونیاں تھیں اور جہاں سفید فام ان کے حکمران تھے، جاپان کی فتح سے یہ حوصلہ ملا کہ یورپی اقوام کو شکست دی جا سکتی ہے اور سفید فام قوموں کی طاقت ایک مفروضہ ہے۔ لہٰذا اس جنگ نے روس اور ایشیا افریقہ کی کالونیوں میں زبردست تبدیلی کی۔

1904ء میں فیکٹری ورکرز کا ایک بڑا اجتماع ہوا، جس میں انہں نے اپنے مطالبات پیش کئے۔ جنوری 1905ء  میں پیٹرز برگ میں ہزاروں لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوا، جن میں ورکرز پیشہ ور کریگر دوکاندار اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے مرد، عورتیں اور بچے شامل ہوئے۔ روسی تاریخ کی یہ روایت تھی کہ عوام بادشاہ کے خلاف بغاوت کرنے کی بجائے اس سے اپیل کرتے تھے کہ وہ ان کے مطالبات کو پورا کرے کیونکہ بادشاہ ان کے لئے باپ کی طرح تھا، جس کا یہ فرض تھا کہ وہ اپنی اولاد یعنی عوام کی فلاح کے لئے کام کرے۔

 چنانچہ اس موقع پر جو اپیل لکھی گئی اس میں یہ تحریر تھا، '' ہم آپ سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے کیونکہ ہم اس قابل نہیں رہے ہیں کہ ہم اپنے بچوں اور بوڑھے والدین کی خدمت کر سکیں۔ اشیاء خور ونوش کی قیمتوں اور بیماریوں نے ہمیں غریب، مفلس اور کمزور کر دیا ہے۔‘‘

 مجمع اس اپیل کو ذار کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تھا، جو اس وقت ونٹرپیلس میں نہیں تھا مگر مجمعے کا مطالبہ تھا کہ یہ اپیل زار کو پہنچائی جائے۔ اس مجمعے میں ہزاروں لوگ شامل تھے، جن میں عورتیں، بچے، بوڑھے اور مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کارکن شامل تھے۔ مجمعے کے لوگ اولیاء کی شبیہیں اور دوسری مذہبی علامتوں کو بھی اُٹھائے ہوئے تھے۔ ہر لحاظ سے یہ ایک پرامن جلوس تھا۔

 مجمعے کی سربراہی گوپانگ نامی ایک راہب کر رہا تھا۔ ملٹری نے مجمعے کو ونٹرپیلس تک نہیں جانے دیا اور اسے روکنے کے لئے گولیاں چلائیں، جس میں کئی لوگ مارے گئے اور کئی سو زخمی ہوئے۔ مجمع اپنی اپیل ذار کو پیش نہیں کر سکا۔

فوج کی اس کارروائی کے بعد اور مجمعے کے منتشر ہونے کے بعد لوگوں میں سخت مایوسی پیدا ہوئی اور یہ امید ختم ہو گئی کہ زار ان کے مطالبات پرامن طریقے سے تسلیم کرے گا۔ لہٰذا عوام میں یہ رجحان پیدا ہوا کہ مسلح جدوجہد کے ذریعے ہی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

 اگرچہ حکومت نے اصلاحات کے ذریعے عوام کو مطمئن کرنا چاہا مگر صورتحال اس حد تک خراب ہو چکی تھی کہ حکومت کی یہ دستوری اصلاحات لوگوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہیں۔ اس کے بعد سے مظاہروں کا پورے ملک میں سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان مظاہروں میں ورکرز، طالب علم، سیاسی کارکن اور عام لوگ شریک ہوتے تھے۔ انہوں نے زار کی حکومت سے تمام توقعات ختم کر دیں۔ اس لئے 1905ء کا انقلاب 1917ء کے انقلاب کا پیش خیمہ بنا۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر مجمعے کے پرامن مظاہروں پر گولیاں برسائی جائیں گی تو اس سے حکومت کو کبھی بھی استحکام نہیں ملے گا۔ دوسرا یہ کہ جب مجمعے کے لوگوں کا قتل عام کیا جائے تو پھر حکومت عوام کے دلوں کو نہیں جیت سکے گی۔

 تیسری اہم بات یہ ہے کہ اگر اصلاحات وقت پر ہوں اور اور عوام کے مفاد میں ہوں تو ان کا اثر ہوتا ہے لیکن جب صورتحال بگڑ جائے اور پھر اصلاحات کو روشناس کرایا جائے تو وہ ناکام ہوتی ہیں اور عوام کا ان سے اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔

ہجوم کی نفسیات

پہلی عالمی جنگ کے بعد ہجوم نے کیا کردار ادا کیا؟

ہجوم کی تصویر کشی میں سینما کا کردار

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔