’ کوپ29 ‘ کے دوران ناٹک بند کیا جائے‘ سائمن اسٹیل
18 نومبر 2024آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں جاری کلائمٹ کانفرنس میں اقوام متحدہ کی آب و ہوا کے تحفظ اور اس سے جڑے اہداف تک پہنچنے کے لیے مؤثر پالیسیوں کے بارے میں بات چیت دوسرے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔ تاہم دنیا بھر کے ممالک غریب ملکوں کے لیے مالیاتی معاہدے کے قریب پہنچتے نہیں نظر آ رہے ہیں۔ یہی وہ عوامل ہیں جو کوپ 29 کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کریں گے۔
اقوام متحدہ کے آب و ہوا کے شعبے کے سربراہ سائمن اسٹیل نے کہا کہ ''دھوکہ دہی، بریک مین شپ اور پہلے سے طے شدہ پلے بُکس قیمتی وقت کو محض ضائع کرتے ہیں اور مطلوبہ خیر سگالی کے امکانات کو ختم کر دیتے ہیں۔‘‘ باکو کے ایک غار نما فٹ بال اسٹیڈیم میں اکٹھے ہوئے مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے سائمن اسٹیل کا مزید کہنا تھا،''آئیے اس تھیٹر یا ناٹک کے سلسلے کو ختم کریں اور اصل مدعے کی طرف آئیں۔‘‘
ڈیڈ لائن قریب آ رہی ہے
اقوام کے پاس اس جمود کو ختم کرنے کے لیے جمعے تک کا وقت ہے۔ کیونکہ ترقی پذیر ممالک کے لیے گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے سالانہ ایک ٹریلین ڈالر جمع کیے جانے کے ہدف تک پہنچنا ضروری ہے۔
پیر اور منگل کو برازیل میں دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں جی ٹوئنٹی ممالک جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک ہیں، کے سربراہان کے سالانہ اجلاس کے لیے مل رہے ہیں۔ اس دوران G20 رہنماؤں پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ باکو میں جمود کے شکار عمل کو متحرک بنانے کے عمل میں اپنا وزن ڈالیں۔’عالمی تنازعات‘ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف اقدامات کی راہ میں رکاوٹ ہیں، جرمن صدر
اُدھر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے اتوار کو ریو ڈی جنیرو میں کہا تھا کہ COP29 کے مثبت اور کامیاب نتیجے تک پہنچنا اب بھی ممکن ہے ''بشرطیکہ G20 ممالک کی قیادت اپنا کردار ادا کرے اور اس کے لیے سمجھوتے کی ضرورت ہوگی۔‘‘
میزبان ملک آذربائیجان کے کوپ ٹوئنٹی نائن کے لیے صدر مختار بابائیف نے کہا کہ یہ G20 ممالک کے لیے ''اپنی قیادت کے مظاہرے کا‘‘ ایک اہم موقع ہے۔
کوپ 29 کے اہم چیلنجز
موسمیاتی سمٹ کوپ 29 کے دوران اس بات پر بھی ایک لڑائی چل رہی ہے کہ آیا دنیا کو فوسل ایندھن سے دور کرنے کے لیے رکن ممالک کو گزشتہ سال کے تاریخی عہد پر دوبارہ عمل کرنا چاہیے؟ سعودی عرب پر قدرتی ماحول کے لیے ضرر رساں گرین ہاؤس گیسوں کے ریکارڈ بلند اخراج کو کم کرنے کے لیےکوششوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
COP29 کا بنیادی کام ترقی پذیر ممالک کو ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی اور بگڑتے ہوئے موسمیاتی حالات سے نبرد آزماں ہونے کے قابل بنانے کے لیے کافی رقم فراہم کرنے سے متعلق ایک نئے معاہدے پر بات چیت کرنا ہے۔
ماحولیاتی بحران کے سبب مہاجرین کی حالت مزید ابتر، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کی طرف سے کمیشن کردہ آزاد معاشی ماہرین کے مطابق چین کو چھوڑ کر ترقی پذیر ممالک کو اس دہائی کے آخر تک بیرونی امداد کے لیے سالانہ ایک ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہوگی۔
موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک چاہتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے موجودہ وعدے کو سالانہ 100 بلین ڈالر تک بڑھانے کا عہد کریں لیکن عطیہ دہندگان کا کہنا ہے کہ وہ اکیلے یہ رقم اکٹھی نہیں کر سکتے اور نجی شعبے کو بھی اس میں شامل ہونا چاہیے۔
امریکہ اور یورپی یونین بھی چاہتے ہیں کہ امیر ابھرتی ہوئی معیشتیں اور خاص طور پر چین بھی اس بوجھ کو بانٹے۔
ک م/ ش خ(اے ایف پی)