پاکستان ميں مقامی میڈیا کے مطابق لاہور کے اکبری منڈی نامی علاقے میں ایک خاتون رکن صوبائی اسمبلی شاہ جہاں کی بیٹی فوزيہ کی جانب سے اُن کے گھریلو ملازم اختر علی پر تشدد کا الزام ہے جس کے باعث اختر علی کی ہلاکت ہوئی۔ تاہم اُن کی صاحبزادی فوزیہ نے ضمانت قبل از گرفتاری لے رکھی ہے۔
فوزیہ کے خلاف پولیس میں ایف آئی آر اختر علی کی بہن عطیہ نے درج کرائی ہے۔ پاکستان کے مقامی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اس مقدمے پر آج ہونے والی عدالتی کارروائی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ملزمہ فوزیہ کو قبل از گرفتاری ضمانت دے دی گئی ہے اور اب مقدمے کی آئندہ سماعت بیس جولائی کو ہو گی۔
دوسری جانب میڈیا ہی کی اطلاعات کے مطابق مبینہ طور پر قتل کيے جانے والے کمسن اختر علی کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ اُس پر تشدد ہوا تھا۔
پاکستان میں آئے دن گھریلو ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ سال دسمبر میں بھی ایک بچی طیبہ پر ایک جج کی بیوی کے مبینہ تشدد کا واقعہ سامنے آیا جس پر پاکستانی سپریم کورٹ نے سو موٹو ایکشن بھی لیا اور یہ مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے۔
ایسے واقعات کسی معاشرے میں کیوں جنم لیتے ہیں؟ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سر گرم کارکن طاہرہ عبداللہ نے ڈوئچے ویلے سے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کا بد سلوکی اور تشدد کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ یہ انسان کی فطرت ہوتی ہے۔
طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ بچوں اور بچیوں کے محنت اور مزدوری کرنے کے خلاف نہ صرف پاکستان میں قوانین موجود ہیں بلکہ پاکستان کے قیام سے پہلے برطانوی راج میں بھی ایسے قوانین موجود تھے۔ طاہرہ عبداللہ کے مطابق ، ’’سن 2013 سے سن 2016 تک چاروں صوبوں نے چائلڈ لیبر کے حوالے سے قوانین کو زیادہ مضبوط کیا۔ لیکن دوسری جانب یہ امر قابل افسوس ہے کہ اس میں وہ بچے شامل نہیں جنہیں اُن کے ماں باپ دوسروں کے گھروں میں کام کے لیے بھیجتے ہیں ۔ یعنی چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کو ملکی قوانین میں خاطر خواہ جگہ نہیں دی گئی۔‘‘
طاہرہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ کم سن گھریلو ملازمین کے ساتھ بد سلوکی میں نہ صرف اُن کے والدین کی غفلت شامل ہے بلکہ ریاست بھی اپنا کردار درست طور پر ادا نہیں کر رہی۔
سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ بچوں کی محنت مشقت کے لیے غربت کو بہانہ بنانا درست نہیں۔ بچوں کو تعلیم اور تحفظ مہیا کرنا اور اُن کی بہبود کے لیے قانون سازی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
-
چند سکوں کے لیے مزدوری
سالانہ یاد دہانی
اقوام متحدہ ہر سال بارہ جون کو چائلد لیبر کے خلاف عالمی دن مناتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں 168 ملین بچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی طرف دھیان مبذول کرانا ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے رکن ممالک نے 1999ء میں ایک کنوینشن منظور کیا تھا، جس میں چائلڈ لیبر کی انتہائی بری اقسام کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اس کنوینشن کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہر فرد بچہ تصور کیا جاتا ہے۔
-
چند سکوں کے لیے مزدوری
بھارت میں تیار کیے گئے تولیہ
بھارتی ریاست تامل ناڈو کی اس فیکٹری میں بچے تولیے تیار کرتے ہیں۔ آئی ایل او کے تخمینوں کے مطابق دنیا کی سب سے بڑے اس جمہوری ملک میں 78 ملین بچوں سے ناجائز مزدوری کا کام لیا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں پانچ سے سترہ برس کی عمر کے بچوں کی دس فیصد تعداد باقاعدہ بنیادوں پر چائلد لیبر کرتی ہے۔
-
چند سکوں کے لیے مزدوری
ایک دن کی مزدوری کےعوض صرف 80 سینٹ
لکھنے پڑھنے اور اسکول جانے کے بجائے یہ بچے اینٹیں بناتے ہیں۔ شدید غربت کی وجہ سے بہت سے بچے چائلڈ لیبر پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنے کبنے کی کفالت کے لیے اپنا پچپن فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بچے روزانہ کم ازکم دس گھنٹے کام کرتے ہیں اور انہیں یومیہ تقریباﹰ صرف 80 سینٹ مزدروی ملتی ہے۔
-
چند سکوں کے لیے مزدوری
سستی مزدروی
بھارتی حکومت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا کے اس اہم ملک میں 12.6 ملین بچے چائلڈ لیبر کرتے ہیں۔ یہ بچے سڑکوں میں ٹھیلے لگانے کے علاوہ درزی، باورچی خانوں، ریستورانوں میں صفائی ستھرائی اور وزن اٹھانے کے علاوہ بھٹیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ بالغوں کے مقابلے میں ان بچوں کو اجرت بھی کم دی جاتی ہے یعنی اگر ایک کام کے ایک بالغ کو ایک روپے ملتے ہیں تو اسی کام کے ایک بچے کو 33 پیسے دیے جاتے ہیں۔
-
چند سکوں کے لیے مزدوری
غیر انسانی حالات
عالمی ادارہ محنت کی 2013ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق چائلد لیبر کرنے والوں میں سے پچاس فیصد سے زائد کو انتہائی برے حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں رات گئے تک لمبے اوقات تک کام کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے بچے بغیر کسی کانٹریکٹ اور ملازمین کو ملنے والے فوائد کے بغیر ہی مزدوری کرتے ہیں۔
-
چند سکوں کے لیے مزدوری
بنگلہ دیش کی مصنوعات
بنگلہ دیش میں بھی چائلد لیبر کی شرح انتہائی بلند ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں تقریباﹰ پانچ ملین بچے ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہے۔ انتہائی برے حالات میں تیار کیے جانے والے یہ کپڑے ترقی یافتہ ممالک میں فروخت کیے جاتے ہیں۔
-
چند سکوں کے لیے مزدوری
ایک بڑے شہر میں تنہا
کمبوڈیا میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ وہاں زیادہ تر بچے اپنے والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں جبکہ ہزاروں بچے سڑکوں پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مثال کے طور پر دارالحکومت پنوم پن میں اس بچی کو اپنی کفالت خود ہی کرنا ہے۔
-
چند سکوں کے لیے مزدوری
فہرست طویل ہے
اگرچہ 2000ء کے بعد عالمی سطح پر مشقت کرنے والوں بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے تاہم کئی ایشیائی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال، کمبوڈیا اور میانمار میں ان معصوم بچوں کی صورتحال تاحال خستہ ہی ہے۔