کرم میں مسافر قافلے پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ
22 نومبر 2024صوبہ خیبر پختونخوا (کے پی) کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر جمعرات کو کی گئی فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 43 ہو گئی ہے، جبکہ متعدد ہلاک شدگان کو آج بروز جمعہ سپرد خاک کر دیا گیا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر صوبے سمیت ملک بھر میں غم وغصہ پایا جاتا ہے۔
اس ضمن میں کے پی کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں منعقدہ ایک مظاہرے کے شرکا نے اس واقع کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے جبکہ خیبرپختونخوا بارکونسل نے اس واقع کے خلاف بطور احتجا ج کل ہفتے کے روز سے عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اس دوران صوبائی اور وفاقی حکومتیں اپنی تمام تر توجہ سیاست پر مرکوز رکھے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔
طویل عرصے سے فرقہ وارانہ کشیدگی کے شکار ضلع کرم میں جمعرات کو یہ تازہ ہلاکتیں ایک ایسے موقع پر ہوئی ہیں، جب کے پی میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے حکومتی عہدیداران چوبیس نومبر کو اسلام آباد میں اپنی پارٹی کا احتجاج کا کامیاب بنانے جبکہ وفاقی حکومت اس احتجاج کو روکنے کے لیے صف بندی میں مصروف ہے۔
ایسے میں ضلع کرم میں امن وامان کی صورتحال بگڑتی جاری ہے۔ علاقے کے عوام قیام امن کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ پشاورمیں کرم سے تعلق رکھنے والےعمائدین نے اپنے احتجاجی مظاہرے کے دوران فوری طور پر حملہ آوروں کے خلاف کاروائی کرنے اور ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچانےکے مطالبات کیے ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ضلع کرم میں رونماہونے والے سانحے کے حوالے سے صوبائی وزیر قانون، علاقے کے قومی وصوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان اور چیف سیکرٹری پر مشتمل وفد کو متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے اورمعروضی حالات کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
انہوں نے تنازعات کے حل کے لیے وہاں پہلے سے موجود قبائلی جرگے کو فعال بنانے کی بھی ہدایت کی ہے۔
وفاقی حکومت کا موقف
ضلع کرم کے سانحے کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ صوبے میں امن و امان کا قیام صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا، ''وفاق سے جہاں بھی تعاون درکار ہوگا، ہم مدد فراہم کریں گے۔ صوبائی حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کے بجائے اسلام آباد پر چڑھائی کی تیاریاں کرنے میں لگی ہے۔‘‘
وفا قی وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا، ''صوبائی حکومت کا جو بھی مطالبہ ہو گا وہ پورا کیا جائے گا لیکن وہاں صوبے میں جنازے اٹھے ہیں اور یہ دھاوا بولنے کی تیاری کررہے ہیں اس پر عوام کو سوچنا چاہیےکہ صوبائی حکومت کیا کر رہی ہے۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی کاواقعے کی تحقیقات کا مطالبہ
عوامی نیشنل پارٹی نے کرم میں دہشت گردی کے واقعے کے لیے وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کو زمہ دار ٹھہرایا ہے۔ پارٹی کے صوبائی صدر میاں افتخارحسین نے کہا کہ عوام کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''بدامنی کی نئی لہر کے باوجود صوبائی حکومت احتجاجوں میں مصروف ہے، صوبے میں عملی طور پر حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ اس طرح کی خونریزی کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی ہیں۔‘‘
خیبرپختونخوا بارکونسل کا ہڑتال کا اعلان
خیبر پختونخوا بار کونسل نے پورے صوبے میں عدالتی کاروائیوں کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ بار کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت امن قائم کرنے میں ناکام رہی ہے اور اگر پندرہ دن کے اندر امن قائم نہیں کیا گیا تو پاڑا چنار کی جانب احتجاجی مارچ کریں گے۔ ''یہ دہشتگردی کا واقعہ ہے عوام کی حفاظت کی ذمہ داری سکیورٹی اداروں کی ہے، جنہوں نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔"
بار کے اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے، ''مسافروں کے قافلے کے لیےسکیورٹی انتہائی کم تھی، جنکی ذمہ داری تھی انہوں نے عوام کو تنہا چھوڑ دیا اور اگر حکومتی ادارے 19 کلومیٹر کا علاقہ کنٹرول نہیں کرسکتے تو پورے قبائلی اضلاع اورصوبے کو کیسے کنٹرول کرینگے۔‘‘
گورنرخیبرپختونخوا نے آل پارٹیزکانفرنس طلب کر لی
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے صوبے میں امن کی بحالی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت قیام امن میں مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''صوبے کے جنوبی اضلاع اور کرم میں امن وامان کی صورتحال روز بہ روز خراب ہوتی جارہی ہے لیکن صوبائی حکومت نے نہ تو کابینہ کا اجلاس بلانا گوار اکیا اور نہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں امن کے قیام کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے پر کوئی بات کی ہے۔‘‘
خیال رہے کہ ضلع کرم ہمیشہ سے فرقہ وارانہ طور پر حساس رہا ہے تاہم حالیہ مہینوں میں یہاں سنی اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں میں تیزی دیکھی گئی ہے اور اس تشدد کے سلسلے میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سنی اکثریتی پاکستان میں کرم ان چند علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں نسبتاً شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
یہ افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے، جہاں شیعہ مخالف عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان اور اسلامک اسٹیٹ جیسے عسکریت پسند گروہ آسانی سے اپنا آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کرم میں ہی جولائی میں زمینی تنازعے پر جھڑپوں میں دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 50 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
جمعرات کو فائرنگ کا یہ واقعہ اس ہائی وے پر پیش آیا، جہاں گزشتہ ماہ مسافر گاڑیوں پر ایک حملے کے بعد، اسے بند کر دیا گیا تھا اور پھر اسے صرف ان لوگوں کے لیے دوبارہ کھولا گی، جو پولیس کی حفاظت میں سفر کر رہے ہوں۔