اس ڈرامے کی کامیابی کے اہم عناصر اس کے مرکزی کرداروں مصطفیٰ (فہد مصطفیٰ) اور شرجینہ (ہانیہ عامر) کی نئی شادی شدہ زندگی میں ایک دوسرے کو سمجھنے کی سعی اور ان کے مابین وقت کے ساتھ پنپنے والا رومان تھے۔ ان کے علاوہ اس کی کہانی وہی روایتی تھی۔ ایک لاابالی اور لا پرواہ سا لڑکا جسے اس کے گھر والے سمجھا سمجھا کرتھک چکے ہیں۔ وہ کسی کی نہیں سنتا۔ رات بھر گیمز کھیلتا ہے اور دن بھر سوتا ہے۔ اس کی شادی ہوتی ہے اور پھر اس کی بیوی اپنی مسلسل کوششوں سے اسے ذمہ دار انسان بناتی ہے۔
لیکن اس بلاگ کا موضوع یہ دو کردار نہیں ہیں۔ اس بلاگ کا موضوع اس ڈرامے کا ایک تیسرا کردار رباب ہے۔ گرچہ یہ ایک منفی کردار ہے لیکن اسے کافی پسند کیا گیا۔ رباب میں وہ تمام بری خصوصیات موجود ہیں، جو ہمارے ڈراموں کے مطابق بری خواتین میں پائی جاتی ہیں۔ مغربی لباس پہننا، انگریزی بولنا، تعلیم یافتہ ہونا، اپنی ایک پہچان اور کیریئر رکھنا۔
رباب اپنے والد کا کاروبار اکیلے سنبھالتی ہے۔ وہ اپنے دفتر میں کام کرنے والے ایک شخص کی ہونے والی شادی ختم کروا کر خود اس سے شادی کرتی ہے۔ وہ شادی کے بعد سسرال نہیں جاتی بلکہ اپنے شوہر کو اپنے ساتھ اپنے گھر میں رکھتی ہے۔ اس ڈرامے کی کچھ اقساط میں وہ اپنے سسرال میں رہی ہے تاہم اس دوران اس نے نہ کبھی اپنے سسرال والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں رکھا۔ نہ کبھی شوہر کا کوئی کام کیا بلکہ اس سے اپنے کام کروائے۔ گھر آنے والے مہمانوں سے بھی بدتمیزی کی۔
ہاں، اس کے بال لمبے تھے۔ ہمارے ڈراموں کی اچھی خواتین کے لمبے بال ہوتے ہیں، جنہیں وہ ہر وقت باندھ کر رکھتی ہیں جبکہ بری خواتین کے چھوٹے بال ہوتے ہیں، جنہیں وہ ہر وقت کھول کر رکھتی ہیں۔ رباب کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ نعیمہ بٹ کے لمبے بال ہیں، جنہیں وہ کٹوانا نہیں چاہتیں۔ اس لیے انہیں ڈراموں میں ان کے لمبے بالوں کے ساتھ ہی کاسٹ کیا جاتا ہے۔ غالباً اسی لیے ہمیں اس ڈرامے میں ان کے برے کردار کے لمبے بال نظر آئے۔
جب رباب کو اپنے شوہر کی کاروبار میں خیانت اور اپنی ہی دوست کے ساتھ تعلق کا پتا چلتا ہے تو وہ سب کے سامنے اسے بےنقاب کرتی ہے اور اسے پولیس کے حوالے کر دیتی ہے۔ لوگوں کو وہ منظر بہت پسند آیا۔ وہ رباب کے اس قدم کو دیگر خواتین کے لیے مثال قرار دے رہے ہیں لیکن کیا پاکستانی خواتین ایسا کر سکتی ہیں؟
غالباً نہیں۔ اس ڈرامے میں رباب اکیلی دکھائی گئی ہے۔ اس کے والد کا کردار بس چند مناظر تک محدود تھا وگرنہ اسے جاننے والا کوئی نہیں ہے۔ پاکستانی خواتین اکیلی نہیں ہوتیں۔ وہ ایک معاشرے میں رہتی ہیں، جہاں ان کے خاندان والے، محلے دار اور دوست احباب ہوتے ہیں۔ ان پر ان لوگوں کا اچھا خاصا دباؤ ہوتا ہے۔
بہت سی خواتین اپنے ہی خاندان میں بیاہی ہوتی ہیں، اور ان کے لیے رشتہ ختم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کئی خواتین کا ان کے اپنے گھر والے ہی ساتھ نہیں دیتے۔ وہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی عزت کی خاطر اپنی آواز دبا کر رکھتی ہیں۔ اگر انہیں کسی بری صورتحال کو ختم کرنا ہو تو وہ ایسا چپ چاپ کرتی ہیں ورنہ خواتین پول کھولنے پر آئیں تو شاید ہی کوئی مرد قابلِ عزت اور قابلِ احترام نکلے۔
رباب کے کردار نے بہت سے ٹیبو کو توڑا لیکن اس نے اپنے دیور اور دیورانی پر پیسے چوری کرنے کا جھوٹا الزام بھی لگایا تھا۔ اس نے اپنے شوہر کو پولیس کی حراست میں دینے کے بعد اپنے ساس سسر کی بری طرح بے عزتی بھی کی تھی اور انہیں اپنے گھر سے جانے کا کہا تھا۔ ہم اس کی تعریف کرتے ہوئے اس کی ان حرکات کو کیسے بھول گئے۔ بلکہ کچھ لوگ تو اس کے اپنے ساس سسر کو گھر سے نکالنے کی بھی تعریف کر رہے ہیں۔
اس ڈرامے نے رباب کے طلاق ٹراما کی بھی بات نہیں کی۔ یہ وہی رباب ہے جو عدیل کی اور شادی طے پا جانے کا سن کر پریشان ہو جاتی ہے۔ وہ اس سے آزاد ہو کر اور اسے جیل بھیج کر اک دم مطمئن کیسے ہو گئی۔ طلاق کے بعد انسان ایک ٹراما سے گزرتا ہے۔ پاکستان میں طلاق معاشرتی ٹیبو ہے۔ یہاں طلاق کے ساتھ زندگی گزارنا کسی بھی انسان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ رباب کا کردار شرجینہ کے کردار کے تقابل میں بنایا گیا تھا۔ اسے چند مناظر اور مکاملے دینے کے باوجود اس کے کردار کے ذریعے تعلیم یافتہ خواتین، اپنی پہچان اور کیریئر رکھنے والی خواتین کی غلط طریقے سے نمائندگی کی گئی ہے۔ اس کا کردار طلاق یافتہ خواتین کے بارے میں بھی کئی غلط تاثرات قائم کرتا ہے۔
مجموعی طور پر، کبھی میں کبھی تم ایک نئے انداز میں بنا روایتی ڈرامہ تھا۔ وہ خواتین اور مردوں کے کرداروں کے بارے میں فرسودہ روایتی باتوں کو دہرا رہا تھا۔ ڈرامہ بنانے والوں نے ڈرامے کے کرداروں میں کچھ تبدیلیاں لانے کی کوششیں ضرور کیں لیکن ان کرداروں کا روایتی پن ان تبدیلیوں پر واضح حاوی نظر آ رہا تھا۔
ایک طرف مظلوم اور بے چاری شرجینہ اور دوسری طرف بدتمیز اور خود سر رباب۔ پاکستانی خواتین ان دونوں کرداروں کی انتہاؤں کے درمیان اپنی زندگی سے جدوجہد کر رہی ہیں۔ کبھی میں کبھی تم ان کرداروں میں تھوڑی سی تبدیلی لایا ہے لیکن مکمل تبدیلی کے لیے ہمیں کسی اور ڈرامے سے امید لگانی ہو گی۔ دیکھیں ایسا ڈرامہ کب بن پاتا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔