1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان: کیا کوئی خطرہ ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
4 جون 2020

کئی حلقے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے اس بیان کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، جس میں بھارت کو کسی کارروائی کا بھرپور جواب دینے کا کہا گیا ہے۔ کئی کا خیال ہے کہ یہ بیان پاک بھارت تعلقات میں تناؤ کا عکاس ہے۔

https://p.dw.com/p/3dGMZ
Pakistan Islamabad - Pakistan Air Force Jet bei Militärparade
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed

واضح رہے جنرل بابر افتخار نے ایک مقامی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت پاکستان کے خلاف ایک فالس فلیگ آپریشن کی سازش کر رہا ہے اور یہ کہ اگر بھارت نے کوئی مہم جوئی کی تو پاکستان بھرپور طاقت کے ساتھ جواب دے گا اور اس کے نتائج کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوں گے۔

190227 Infografk Kashmir Conflict EN

دفاعی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بیان معاملے کی سنگینی اور پاک بھارت تعلقات میں تناؤ کا عکاس ہے۔ واضح رہے دونوں ممالک کے تعلقات گزشتہ اگست سے کشیدہ ہیں۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل غلام مصطفے کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے آرٹلری کی موومنٹ غیر معمولی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''کشمیر میں ایک طرف بھارت ایک نئی قیادت پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری طرف چین کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے بھی مودی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ ایسے میں پاکستان کو لگتا ہے کہ نئی دہلی اور انتہا پسند مودی حکومت کوئی بھی مہم جوئی کر سکتی ہے۔ ان کی طرف سے آرٹلری کی موومنٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: ’اقوام متحدہ پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو اپنے کنٹرول میں لے‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے طور پر کچھ ریڈ لائنز کا تعین کیا ہے،''اگر وہ سرجیکل اسٹرائیک کرتے ہیں یا آزاد کشمیر( پاکستان کے زیر انتظام کشمیر) میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، تو یہ ریڈ لائنز کو کراس کرنے کے مترادف ہوگا اور ایسا لگتا ہے کہ بھارت ان ریڈ لائنز کو کراس کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر آپ ان کے میڈیا کو دیکھیں اور ان کے لکھاریوں کو پڑھیں تو آپ کو اس بات کے اشارے ملیں گے۔‘‘

پاکستان کے کئی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ اسلام آباد کے لیے کانگریس کی حکومت پھر بھی کچھ بہتر ہے، جس میں کئی عناصر خطے میں امن کے خواہاں ہیں لیکن بی جے پی اور اس کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس خطے میں امن نہیں چاہتے اور ان کا رویہ پاکستان کی طرف انتہائی مخاصمانہ ہے۔

  کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ مودی کا بھارت خطے کے تمام ممالک سے لڑنے کے لیے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ انہوں نے ڈِی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے، بھارت کے نیپال اور چین سے بھی تعلقات کشیدہ چل رہے ہیں۔ بھارت کے اندر بھی بہت سے مسائل ہیں، تو ایسے میں وہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی مہم جوئی کر سکتے ہیں، جس کے بہت خطرناک نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔‘‘

پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے کشمیریوں کا خیال ہے کہ کشیدگی کسی ایک ملک کی طرف سے نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک اس تناؤ کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والی جمعوں کشمیر پیپلزنیشنل پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار راجہ ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی سے بھی کشمیریوں کو نقصان ہوتا ہے اور جنگ کی صورت میں تو وہ تباہ و برباد ہو جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے: بھارت کے اعتراض کے باوجود کشمیر میں چین کا پاور پلانٹ

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پہلے ہی دونوں اطراف کے کشمیری گولہ باری کا شکار ہیں۔ ہمارے لوگ روزانہ شہید ہورہے ہیں یا زخمی۔ ہمارے گھر تباہ ہورہے ہیں اور جنگ کی صورت میں تو ہمارے لیے مکمل تباہی ہے۔ دونوں ممالک میں کورونا کی وجہ سے معاشی مشکلات بڑھ رہی ہیں اور اس سے اندرونی خلفشار بڑھے گا، جس سے توجہ ہٹانے کے لیے دونوں ممالک خطے کو جنگ کی آگ میں جھونک سکتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی امن پسند قوتیں اور کشمیری میدان عمل میں آئیں،''کیونکہ جنگ کی صورت میں صرف کشمیری ہی تباہ نہیں ہوں گے بلکہ پورا خطے تباہی کا شکار ہوگا۔ اس لیے پاکستان اور بھارت کی امن پسند قوتوں کو اس اجتماعی پاگل پن کو ختم کرنا پڑے گا جو ہمیں جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔‘‘

بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار طاہر مجید کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں اس وقت لوگ بہت جذباتی ہوئے ہوئے ہیں، ''یہاں بہت سارے لوگ چاہتے ہیں کہ جنگ ہو اور وہ چین کی مداخلت کو بھی اہم سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس سے مسئلہ شاید حل ہوجائے لیکن کشمیر میں ایک بڑی تعداد امن پسند عناصر کی بھی ہے، جو سمجھتے ہیں کہ جنگ نہ صرف کشمیر بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے خطرناک ہو گی کیونکہ دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ اس لیے میں تو اس کشیدگی اور تناؤ کے خلاف ہوں۔ میں پاکستان کی پراکسی کے بھی خلاف ہوں اور مودی کی انتہا پسندی کے بھی خلاف ہوں۔ کشمیر کا مسئلہ پر امن طریقے سے حل ہونا چاہیے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید