چین کا بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا پہلا عوامی تجربہ
25 ستمبر 2024چین نے پہلی بار عوامی طور پر تسلیم کیا کہ اس نے بدھ کے روز بحر الکاہل میں ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس پیش رفت سے چین کی جوہری صلاحیتوں کے متعلق بین الاقوامی خدشات میں اضافے کا امکان ہے۔
چین کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا،"بدھ کے روز جس بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا گیا، اس پر ایک 'ڈمی وارہیڈ' تھا اور یہ توقع کے مطابق سمندری علاقے میں مقررہ مقام پر گرا۔"
چین کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر امریکی تشویش
بھارت پاکستان اور چین کی سرحد پر بیلسٹک میزائل تعینات کرے گا
وزارت دفاع کے ترجمان ژانگ ژیاؤگینگ نے کہا، "بیلسٹک میزائل کا یہ تجربہ ان کے سالانہ تربیتی منصوبے کے معمول کا حصہ تھا اور اس میں کسی ملک یا ہدف کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔" انہوں نے مزید کہا کہ یہ تجربہ بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق تھا اور اس کا مقصد ہتھیاروں اور فوجی تربیت کی کارکردگی کی جانچ کرنا تھا۔
چین کی وزارت دفاع نے اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا نے ایک علیحدہ رپورٹ میں بتایا کہ چین نے "متعلقہ ممالک کو پیشگی مطلع کر دیا تھا،"جس میں میزائل کا راستہ واضح نہیں کیا گیا تھا یا یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ یہ بحرالکاہل میں کہاں گرا ہے۔"
چین کا ہائپرسونک میزائل تجربہ 'سپوتنک' جیسا لمحہ تھا، امریکی جنرل
ژنہوا نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا کہ اس تجربے سے "ہتھیاروں اور آلات کی کارکردگی اور فوجیوں کی تربیت کی سطح کو مؤثر طریقے سے جانچ لیا گیا اور متوقع ہدف حاصل کر لیا گیا۔"
چین کے پاس سینکڑوں آپریشنل نیوکلیئر وار ہیڈز ہیں
چین نے بدھ کے روز گوکہ پہلی بار عوامی طور پر تسلیم کیا کہ اس نے ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے تاہم، بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی جوہری تیاری کی رفتار قابل اعتبار کم از کم ڈیٹرنس سے کافی آگے ہے۔
بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ "پہلے استعمال نہیں" کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
چین کی فوج پیپلز لبریشن آرمی کی راکٹ فورس، جو کہ ملک کی روایتی اور جوہری میزائلوں کی نگرانی کرتی ہے، کو چین کی جوہری قوتوں کو جدید بنانے کا کام سونپا گیا ہے تاکہ وہ امریکی میزائلوں کا مقابلہ کرسکے۔
چینی فوج کا کہنا ہے کہ صدر شی جن پنگ کی سربراہی میں سینٹرل ملٹری کمیشن واحد ایٹمی کمانڈ اتھارٹی ہے۔
امریکہ، چین پر اپنی جوہری تیاری پر پردہ پوشی کرنے کی وجہ سے اکثر تنقید کرتا رہا ہے۔ بیجنگ نے جولائی میں تائیوان کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت کا حوالہ دیتے ہوئے واشنگٹن کے ساتھ جوہری مذاکرات ختم کر دیے۔
پینٹاگون نے پچھلے سال اندازہ لگایا تھا کہ چین کے پاس 500 سے زیادہ آپریشنل نیوکلیئر وار ہیڈز ہیں، جن میں سے تقریباً ساڑھے تین سو بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ہیں اور 2030 تک ممکنہ طور پر ان کی تعداد 1,000 سے زیادہ ہو جائے گی۔
اس کے مقابلے میں امریکہ اور روس نے بالترتیب 1,770 اور 1,710 آپریشنل وار ہیڈز تعینات کیے ہیں۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ 2030 تک، بیجنگ کے زیادہ تر ہتھیار تیار رہنے کی اعلی سطح پر ہوں گے۔
ج ا ⁄ ص ز (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے)