پیغمبر اسلام کے خاکے دکھانے والے ٹیچر کا قتل: مقدمہ شروع
5 نومبر 2024چار سال قبل، فرانس میں تاریخ کے ٹیچر سیموئیل پیٹی کے قتل نے پورے فرانس اور بیرون ملک صدمے کی لہر دوڑا دی تھی۔
سولہ اکتوبر 2020 کی جمعے کی سہ پہر کو ایک 18 سالہ چیچن نژاد نوجوان عبد اللہ انزوروف نے پیرس کے شمال مغربی مضافاتی علاقے میں اسکول کے سامنے 47 سالہ پیٹی کو چاقو مار کر اس کا سر قلم کر دیا تھا۔ اس کے چند ہی منٹوں بعد پولیس نے انزوروف کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ لہٰذا مقدمے کی سماعت قتل کے بارے میں کم ہے اور اس کے أسباب وحالات کے بارے میں زیادہ ہے۔
فرانس میں ایک استاد کا قتل ’دہشت گردانہ حملہ‘ تھا، ماکروں
پیٹی نے آزادی اظہار اور رائے پر ہونے والی ایک معمول کی بحث کے دوران اپنی کلاس کے بچوں کو پیغبر اسلام کے متنازعہ خاکے دکھائے تھے، جو طنزیہ میگزین شارلی ایبدو نے شائع کیے تھے۔ جس کے بعد جنوری 2015 میں اس کے دفاتر پر دہشت گردانہ حملے ہوئے تھے جن میں 12 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
پیرس کی ایک عدالت نے، پچھلے سال پیٹی حملے کے سلسلے میں چھ نوجوانوں کو دو سال تک قید کی سزا سنائی تھی۔ ان میں سے چار کو معطل سزائیں سنائی گئیں۔ اب آٹھ بالغ افراد پر مقدمہ چل رہا ہے، جن میں سے دو پر قتل میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
ٹیچر کے قتل کا مقدمہ، پیرس میں عدالتی کارروائی شروع
دو افراد کو عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے، جس کا مطلب فرانس میں 30 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا ہے۔ ان پر شبہ ہے کہ وہ قاتل کے ساتھی ہیں، ہتھیار خریدنے میں اس کی مدد کی تھی یا اسے قتل کے مقام پر لے گئے تھے۔
پانچ دیگر مرد اور ایک عورت پر دہشت گرد گروپ سے تعلق رکھنے کا الزام ہے اور انہیں 30 سال تک قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ ان پر شبہ ہے کہ انہوں نے حملہ آور کی حوصلہ افزائی کی، اس کے جرم کی تعریف کی یا نام نہاد اسلامک اسٹیٹ دہشت گرد گروپ میں شامل ہونے کے لیے شام جانے کا منصوبہ بنایا۔
دوسرے گروپ میں اس لڑکی کے والد بھی شامل ہیں، جس کی عمر واردات کے وقت 13 سال تھی۔ لڑکی پر الزام ہے کہ اس نے اپنے والد سے جھوٹ بولا تھا کہ پیٹی نے متنازعہ خاکے دکھانے سے پہلے اسے اور دیگر مسلم طلبہ کو کلاس روم سے نکل جانے کو کہا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس لڑکی نے کلاس میں شرکت ہی نہیں کی تھی اور مبینہ طور پر صرف ایک بہانہ تلاش کر رہی تھی کیونکہ اسے کسی دیگر وجہ سے اسکول سے عارضی طور پر نکال دیا گیا تھا۔
فرانسیسی سیکولرازم، اسکول کا نام مقتول ٹیچر پر رکھنے سے انکار
لیکن اس کے والد غصے میں تھے اور انہوں نے آن لائن نفرت انگیز مہم شروع کی جس نے حملہ آور کی توجہ پیٹی کی طرف مبذول کرائی۔
مقدمے پر پورے فرانس کی نگاہ ہے
پیٹی نیز دہشت گردی کے حملوں کے متاثرین کی فرانسیسی ایسوسی ایشن، اے ایف وی ٹی، جو اس مقدمے میں مدعی ہے، کے وکیل کاسوبولو فیرو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پورے فرانس کی اس مقدمے پر نگاہ ہے، کیونکہ یہ ایک اہم چیز کی علامت ہے۔ حملہ آور نے ہمارے ایک تاریخ کے ٹیچر پر حملہ کیا، جو ہمارے تعلیمی نظام، ہماری اقدار، ہمارے سیکولرازم کے علمبردار تھے۔"
فرانس کی سیکولرازم کی تعریف کے مطابق - چرچ اور ریاست الگ الگ ہیں- اسکول میں مذہبی علامات پر پابندی ہے۔ فرانس میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے اور 1881 سے توہین رسالت جرم نہیں ہے۔
لیکن وکیل ونسنٹ برینگارتھ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ علامتی سزائیں موثر ہیں۔ برینگارتھ ایک ایسے شخص کی نمائندگی کرتے ہیں جنہیں فرانسیسی خفیہ اداروں نے اسلام پسند کارکن قرار دے رکھا ہے۔ مذکورہ شخص نے لڑکی کے والد کے ساتھ مل کر، پیٹی کے اسکول کے سامنے ایک ویڈیو بنائی اور الگ سے ایک اور ویڈیو جاری کی جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ پیٹی نے پیغمبر اسلام کی توہین کی ہے۔
برینگارتھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہماری عدالتوں کو ہمارے قوانین کی بنیاد پر اس کیس کا فیصلہ کرنا چاہیے اور اخلاقی پولیس نہیں بننا چاہیے۔" انہوں نے کہا "کیس فائل سے پتہ چلتا ہے کہ حملہ آور نے کبھی بھی میرے کلائنٹ کی ویڈیو نہیں دیکھی- جب متنازعہ خاکے شائع ہوئے تھے اس نے اسی وقت اپنے ہدف کا انتخاب کرلیا تھا۔"
برینگارتھ نے مزید کہا کہ فرانس کو محتاط رہنا چاہیے کہ وہ خطرناک نظیرقائم نہ کرے۔
سیکولرازم کے اصولوں کا 'جائزہ لینے' کا وقت
مونٹ پیلیئر یونیورسٹی میں میڈیا، سیاست اور مذہب کی پروفیسر میہائیلا الیکزاندرا ٹوڈور کا خیال ہے کہ یہ مقدمہ فرانس کے قانون سازوں کے لیے انسداد دہشت گردی قوانین کا "جائزہ لینے" کا موقع بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا، "2000 کی دہائی کے اوائل سے دہشت گردی کے خلاف متعدد نئے قوانین بنائے گئے ہیں اور سیکولرازم سے متعلق بھی ایک قانون ہے جو 2021 میں نافذ ہوا۔" انہوں نے کہا۔ "اس میں سیکولرازم کے بارے میں مشیروں کا کردار طے کیا گیا ہے اور اس بارے میں سخت قوانین مرتب کیے ہیں کہ کون مذہبی گروہوں کی مالی معاونت کرتا ہے۔"
الیکزاندرا ٹوڈور کا تاہم کہنا تھا،"فرانسیسی شاید ہی اس بات سے واقف ہوں کہ ان کی حکومت کس طرح دہشت گردی کے خطرات کو مدنظر رکھتی ہے۔ رائے شماری بتاتی ہے کہ مذہبی دہشت گردی اب بھی ان کی سب سے بڑی پریشانیوں میں شامل ہے۔"
"یہ اس لیے بھی ہے کہ زیادہ تر حملے اب گروہوں کے ذریعے نہیں کیے جاتے ہیں، بلکہ انفرادی حملہ آوروں کے ذریعے کیے جاتے ہیں، جن کا پہلے سے پتہ لگانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔"
ج ا ⁄ ص ز (لیزا لوئس، پیرس)