پلاسٹک معاہدے پر اقوام متحدہ مذاکرات شروع،اختلاف رائے برقرار
25 نومبر 2024جنوبی کوریا، پلاسٹک پروڈکشن کو محدود کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی بین الحکومتی مذاکراتی کمیٹی کے پانچویں اور بظاہر آخری اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ اوٹاوا میں اپریل میں مذاکرات کے پچھلے دور میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔
چونکہ پیٹروکیمیکل پیدا کرنے والے سعودی عرب اور چین جیسے ممالک پلاسٹک آلودگی کے شکار ملکوں کے احتجاج اور اس کے پروڈکشن کو محدود کرنے کی کوششوں کی شدید مخالفت کررہے ہیں، اس لیے بات چیت بڑی حد تک کیمیکلز اور دیگر امور پر مرکوز ہو گی۔
ملکوں کے مابین اس معاملے پر اختلافات کی وجہ سے پلاسٹک پر کوئی معاہدہ نہیں ہو پارہا ہے اور اس نے گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کی اقوام متحدہ کی کوششوں کو اب تک کاماب نہیں ہونے دیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال باکو میں حال ہی میں اختتام پذیر کوپ ٹوئنٹی نائن اجلاس ہے۔ جس میں ہونے والے حتمی معاہدے کو غریب ملکوں نے ناکافی قرار دیا۔
بین الحکومتی مذاکراتی کمیٹی کےچیئرمین لوئس ویاس والڈی ویئزو نے پیر کو روز بوسان میں افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "اگر مناسب اقدامات نہیں کیے گئے تو سال دو ہزار چالیس تک ماحول میں پلاسٹک کی سالانہ مقدار سال دو ہزار بائیس کے مقابلے دوگنا ہو جائے گی۔"
انہوں نے کہا کہ انسانی اعضاء میں مائکرو پلاسٹکس پائے گئے ہیں، جس سے "انسانیت کے وجود کو درپیش چیلنج بڑھ گیا ہے۔"
ٹرمپ کی فتح بھی ایک اہم عنصر
امریکہ نے اگست میں کہا تھا کہ اگر یورپی یونین، کینیا، پیرو اور دیگر ممالک پلاسٹک پروڈکشن کو محدود کرنے پر راضی ہوتے ہیں تو وہ بھی اس معاہدے کی حمایت کرے گا۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور صدر انتخاب نے امریکہ کے موقف پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ کیونکہ اپنے پہلے دور صدارت میں انہوں نے امریکی تیل اور پیٹرو کیمیکل کی پیداوار کو سست کرنے یا روکنے کے سلسلے میں کثیر جہتی معاہدوں اور کسی بھی وعدے سے گریز کیا تھا۔
امریکی وفد نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ آیا یہ پلاسٹک پروڈکشن کو محدود کرنے کے سلسلے میں اپنی نئی پوزیشن کو پلٹ دے گا۔ وائٹ ہاؤس کونسل برائے ماحولیات کے ایک ترجمان کے مطابق امریکہ " پلاسٹک کی مصنوعات، پلاسٹک کی مصنوعات میں استعمال ہونے والے کیمیکلز، اور بنیادی پلاسٹک پولیمر کی فراہمی کو یقینی بنانے کی عالمی اقدامات کی حمایت کرتا ہے۔"
اقوام متحدہ کے ماحولیات پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا کہ وہ پراعتماد ہیں کہ بات چیت ایک معاہدے کے ساتھ ختم ہو گی۔ اس حوالے سے انہوں نے گزشتہ ہفتے گروپ آف 20 کے سربراہی اجلاس کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ کی طرف اشارہ کیا، جس میں اس سال کے آخر تک معاہدہ کو قانونی طور پر سب کے لیے نافذ العمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ج ا ⁄ ص ز (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)