پاکستان میں بین الاقوامی زبانیں سیکھنے کا رجحان کیوں نہیں؟
8 ستمبر 2024کتنے پنجابی ایسے ہیں جو ہندکو، سندھی یا پشتو کی سوجھ بوجھ رکھتے ہوں گے؟ یہی سوال پختون، بلوچ اور سندھیوں سے دیگر مقامی زبانوں کے بارے میں کیا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال میں بین الاقوامی زبانوں سے واقفیت کا سوال بہت دور رہ جاتا ہے۔
مختلف زبانوں سے شناسائی کیوں ضروری ہے؟
آٹھ ستمبر دنیا بھر میں انٹرنیشنل لٹریسی ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کا رواں برس کا تھیم '’باہمی افہام و تفہیم اور امن کے لیے کثیر اللسانی تعلیم کا فروغ‘‘ ہے۔ یہ اس بات کی اہمیت اجاگر کرتا ہے کہ کس طرح کثیر اللسانی تعلیم معاشرتی اور ثقافتی نفرتیں مٹانے، انسانوں کو آپس میں قریب لانے اور باہمی احترام پیدا کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے مصنف اور ماہر لسانیات زیف سید کہتے ہیں، ”یہ سائنسی حقیقت ہے کہ ایک زبان بولتے ہوئے ہمارے دماغ کا ایک حصہ فعال ہوتا ہے، ہمیں جتنی زیادہ زبانیں آتی ہوں گی، دماغ کے اتنے حصے فعال ہوں گے اور ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں بہتر انداز میں کام کریں گی۔ زبانوں سے واقفیت صحیح معنوں میں ہمارا ذہنی افق وسیع کرتی ہے۔ زبان صرف ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ مختلف تقافتوں کو جاننے اور نئی دنیاؤں میں جھانکنے کی کھڑکی ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ کتنی مختلف دنیاؤں کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔"
کیا پاکستان میں نئی زبانیں دریافت کی منتظر ہیں؟
باہمی افہام و تفہیم اور امن کے حوالے سے زبانوں کی اہمیت کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ”انسان اپنی بنیادی کیفیات میں ایک جیسے ہیں، اسی لیے فرانسیسی شاعری یا جرمن ناول پڑھتے ہوئے ہمارے خطے کا فرد اس میں کامیابی سے اپنا عکس تلاش کرتا ہے، اس پر منکشف ہوتا ہے کہ نسلی، لسانی یا مذہبی تعصبات سے ہٹ کر انسان ایک اور دھاگے سے بندھے ہیں جسے انسانیت کہا جاتا ہے۔ ایسا فرد ریاستی پروپیگنڈہ کا آسان ہدف نہیں بنتا۔ وہ دوسروں کی روایات اور نقطہ نظر کا احترام کرتا ہے، جو خوشگوار اور پُرامن دنیا کے لیے ضروری ہے۔"
پاکستان میں دیگر زبانیں سیکھنے کا ماند پڑتا رجحان
اختر عثمان معروف شاعر اور سماجی نقاد ہیں، جن کی نصف درجن سے زائد تخلیقات مقامی اور بین الاقوامی زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”ہمارے خطے کی روایت تھی کہ 'عالم‘ اس فرد کو کہا جاتا تھا، جو کئی زبانوں کا ماہر اور مختلف ثقافتوں کا شناور ہوتا تھا۔ عام افراد بھی مختلف زبانوں کے محاورے بولتے، شعر پڑھتے اور قصے سنایا کرتے تھے۔ ہمارا تہذیبی و ثقافتی ربط ایران اور عرب ممالک سے زیادہ رہا، سو کوئی بھی پڑھا لکھا شخص فارسی عربی سمیت کئی مقامی زبانوں سے زیادہ نہیں تو تھوڑی بہت سدھ بدھ ضرور رکھتا تھا۔"
وہ کہتے ہیں، ”ایسا لگتا ہے پاکستان بننے کے بعد ہم نے ثقافتی و تہذیبی سرگرمیوں سے خود کو علیحدہ کر لیا، دیکھا جائے تو مقامی و بین الاقوامی زبانوں کے حوالے سے ہم زوال پذیر ہوئے۔ اب کثیر اللسان اور کثیر الجہت شخصیات انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں۔"
ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے زیف سید کہتے ہیں، ”زمانے نے کروٹ لی تو کچھ دیگر بین الاقوامی زبانیں زیادہ اہم ہو گئیں لیکن ہم نہ وہ سیکھ پائے نہ زبان شناسی کی اپنی قدیم روایات کو سنبھال سکے۔ پہلے یہاں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ اور خانہ فرنگ ایران جیسے ادارے فعال تھے، طلبہ میں ایک شوق تھا کہ نئی زبان سیکھی جائے۔ آج نئی زبانیں سیکھنا بہت آسان ہے لیکن کلچر نہ ہو تو آپ لوگوں کو ہانک کر نہیں لا سکتے۔"
اردو اور انگریزی کی ثقافتی بالادستی کے بوجھ تلے دبتی مقامی زبانیں
ماہرین کی ایک بڑی تعداد مقامی اور بین الاقوامی زبانوں سے عدم دلچسپی کا سبب اردو اور انگریزی کی ثقافتی بالادستی کو سمجھتی ہے۔
معروف محقق اور ماہر لسانیات ڈاکٹر طارق رحمان اپنے ریسرچ پیپر ''پاکستان میں لسانی حکمت عملی، کثیر اللسانیت اور زبان کی بقا‘‘ میں لکھتے ہیں، ''ابتداء میں چونکہ بیوروکریسی کے ایک بہت ہی طاقتور طبقے کی مادری زبان اردو تھی (کیونکہ وہ مہاجر تھے)، اس لیے اردو کو فوقیت دینے میں ایک قسم کی ثقافتی بالادستی کا عنصر موجود تھا۔ مہاجر اشرافیہ کا موقف، چاہے وہ بیان کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو، یہ تھا کہ وہ پاکستان کی مقامی زبانیں بولنے والوں کے مقابلے میں زیادہ مہذب ہیں۔ لہٰذا یہ فطری بات ہے کہ 'کم تر‘ زبانوں کی جگہ اردو استعمال کی جائے۔ "
پاکستان کی قومی اور نوکر شاہی کی زبانیں مختلف، حل کب نکلے گا؟
وہ لکھتے ہیں، ”اس نے کثیر اللسانی کلچر کو خطرے میں ڈال دیا اور عملی طور پر دوسری پاکستانی زبانوں کو پیچھے دھکیل دیا۔" وہ اس عمل کو ”ملک میں لسانی اور ثقافتی تنوع کو خطرے" میں ڈالنے کا اہم سبب بتاتے ہیں۔
انگریزی زبان کے حوالے سے ڈاکٹر طارق رحمان لکھتے ہیں، ”1971 تک فوجی افسران وہ لوگ رہے، جنہیں 'برطانوی نسل‘ کہا جاتا ہے۔ انگریزی انہیں نہ صرف عام افراد بلکہ اردو میڈیم والوں سے بھی ممتاز کرتی تھی۔"
وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انگریزی اور اردو کا غلبہ اشرافیہ کے حق میں تھا، جسے انہوں نے ہر قیمت پر برقرار رکھا۔
زیف سید کہتے ہیں، ”ان پالیسوں کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد دنیا جہاں کے لٹریچر، تاریخ اور موسیقی پر بات کریں گے لیکن مقامی کلچر کا ذکر آتے ہی زبانیں گنگ ہو جائیں گی۔"
پاکستان کا نظام تعلیم کثیر اللسانی کلچر کا بیج بونے میں ناکام کیوں رہا؟
زبیدہ مصطفی تعلیم اور لسانیات کے موضوع پر تین کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو نے ان سے یونیسکو کے '’کثیر اللسانی تعلیم کے فروغ‘‘ کے پس منظر میں پاکستان کے تعلیمی نظام پر بات کی تو ان کا کہنا تھا، ”ہمارا نظام تعلیم کثیر اللسانی تعلیم دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوا، پچھتر سال میں ہم فیصلہ نہ کر سکے کہ ذریعہ تعلیم کیا ہو گا؟ اشرافیہ کو بچوں کے مستقبل، ثقافتی سرگرمیوں یا کثیر اللسانی معاشرے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ انگریزی اور اردو سے پیچھے ہٹنے والے نہیں، انہیں معلوم ہے ان کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے پڑھ کر آئیں گے اور باپ کی کرسی سنبھال لیں گے۔"
وہ کہتی ہیں، ”دنیا کا کوئی معاشرہ اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ بچہ اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرے، جب اس میں ذرا پختہ ہو جائے، تب دیگر زبانیں سیکھے۔ ہم مادری زبان سیکھنے نہیں دیتے، انگریزی اور عربی سکھانے کے فرسودہ طریقے آزماتے ہیں، جس سے بچے زبان سیکھنے سے بالکل بدظن ہو جاتے ہیں۔ ہم نے زبانیں سکھانے کے حوالے سے کبھی اساتذہ کی تربیت پر توجہ نہیں دی۔"
زیف سید کہتے ہیں، ”دنیا بھر کا تعلیمی نظام نئی زبان سیکھنے کی مختلف طریقوں سے حوصلہ افزائی کرتا ہے، خصوصی سکالرشپ دیے جاتے ہیں، Credit hours رکھے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا کوئی تصور ہی نہیں۔"