1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں صحت عامہ کے لیے بڑا خطرہ صنعتی ٹرانس فیٹی ایسڈز

27 نومبر 2024

پاکستان میں صحت عامہ کے لیے ایک بڑا خطرہ غذا میں شامل وہ صنعتی ٹرانس فیٹی ایسڈز ہیں، جن کے سبب ہر سال دو لاکھ پاکستانی دل کی مختلف بیماریوں کا شکار اور دنیا بھر میں قریب پونے تین لاکھ انسان ہلاک ہو جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4nTdF
ڈاکٹر نور حسن کاکڑ نے بتایا، ''ہم نے 1800 فوڈ بزنس معائنے کیے۔ تقریباﹰ 1200 نمونوں کے تجزیے کیے۔ بناسپتی گھی کے 90 فیصد نمونے اور تیل کے 60 ٖفیصد نمونے ناقص نکلے
ڈاکٹر نور حسن کاکڑ نے بتایا، ''ہم نے 1800 فوڈ بزنس معائنے کیے۔ تقریباﹰ 1200 نمونوں کے تجزیے کیے۔ بناسپتی گھی کے 90 فیصد نمونے اور تیل کے 60 ٖفیصد نمونے ناقص نکلےتصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum

چکنائی یا فیٹ انسانی خوراک کا ایک لازمی جزو ہے، جسے سائنسی زبان میں فیٹی ایسڈ بھی کہتے ہیں۔ کیمیائی حوالے سے فیٹی ایسڈز دو طرح کے ہوتے ہیں، سیچوریٹڈ اور نان سیچوریٹڈ۔ نان سیچوریٹڈ فیٹی ایسڈز کو ٹرانس فیٹی ایسڈز یا مختصراﹰ ٹی ایف ایز (TFAs) بھی کہا جاتا ہے، جو بہت سی اشیائے خوراک میں قدرتی طور پر بھی موجود ہوتے ہیں اور صنعتی پیمانے پر خوراک کی تیاری کی وجہ سے پروسیسڈ فوڈز میں شامل ہونے کے سبب صنعتی ٹرانس فیٹی ایسڈز کہلاتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے رواں برس جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صنعتی ٹرانس فیٹ کے باعث دنیا بھر میں سالانہ دو لاکھ 78 ہزار انسان ہلاک ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر اس وجہ سے کہ یہ چکنائی خون کی شریانوں کو تنگ کر دیتی، دل کا دورہ پڑنے کے خطرے کو بہت زیادہ کر دیتی اور بالآخر کسی بھی انسان کی جان لے لیتی ہے۔

پاکستان میں عام شہریوں کی غیر صحت مند غذائی عادات کی وجہ سے ان کی روزانہ خوراک میں صنعتی ٹرانس فیٹی ایسڈز اوسطاﹰ بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ملک میں مختلف طرح کے سرطان اور دوران خون کی بیماریوں، خاص کر امراض قلب کی شرح میں بہت اضافہ ہو چکا ہے اور پاکستان کا شمار ان ممالک میں بھی ہوتا ہے، جہاں قومی آبادی میں ذیابیطس یا شوگر کے مریضوں کا تناسب بہت تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر نور حسن کاکڑ نے بتایا، ''ہم نے 1800 فوڈ بزنس معائنے کیے۔ تقریباﹰ 1200 نمونوں کے تجزیے کیے۔ بناسپتی گھی کے 90 فیصد نمونے اور تیل کے 60 ٖفیصد نمونے ناقص نکلے
ڈاکٹر نور حسن کاکڑ نے بتایا، ''ہم نے 1800 فوڈ بزنس معائنے کیے۔ تقریباﹰ 1200 نمونوں کے تجزیے کیے۔ بناسپتی گھی کے 90 فیصد نمونے اور تیل کے 60 ٖفیصد نمونے ناقص نکلےتصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

روکی جا سکنے والی انسانی اموات کی روک تھام اور انسانی صحت کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی سطح پر فعال تنظیم گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر (GHAI) کے پاکستان کے لیے کوآرڈینیٹر منور حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹرانس فیٹی ایسڈز والی غذائیں زیادہ کھانے کے باعث پاکستان میں دل کی مختلف بیماریوں کے سالانہ تقریباﹰ دو لاکھ نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔
منور حسین نے ایک انٹرویو میں ڈیٹا کے ساتھ مثالیں دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''2015 میں پاکستان میں امراض قلب کی ادویات کی خریداری پر سالانہ 428 بلین روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق 2021 میں اس بیماری کے ایک مریض نے سالانہ اپنی ادویات کے لیے اوسطاﹰ  80 ڈالر خرچ کیے۔ پاکستان میں اس وقت شوگر کے مریضوں کی تعداد تقریباﹰ 33 ملین ہے۔ یوں صرف شوگر کی بیماری کے خلاف ادویات پر خرچ کی جانے والی سالانہ رقم ہی 2.6 بلین امریکی ڈالر سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ اب دیکھیے کہ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے نئے ریسکیو پیکج کے طور پر کتنی رقم مانگ رہا ہے؟‘‘

انہوں نے کہا، ''پاکستان میں عوام اگر اپنی غذائی عادات بہتر بنا لیں، صنعتی ٹرانس فیٹ کو اپنی خوراک کا حصہ کم سے کم بنائیں، صحت مند زندگی گزاریں، تو ملک میں 20 فیصد ہسپتالوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور ملکی معیشت بھی بہت بہتر ہو جائے گی۔‘‘

مضر صحت چکنائی کا استعمال، پاکستان سرفہرست ممالک میں شامل

سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹیوز (سی پی ڈی آئی) نامی ادارے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مختار احمد نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ صنعتی ٹرانس فیٹی ایسڈز سے نجات کا عمل ہر کسی کو اپنے گھر سے شروع کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا،''آگہی مہم بہت ضروری ہے، لیکن یقینی مثبت نتائج کے ساتھ۔ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ بھی اس مہم کا حصہ بنیں۔ عوام کو بتائیں کہ وہ خود کس طرح اپنی اچھی صحت کے لیے ٹرانس فیٹی ایسڈز والی غذاؤں سے دور رہتے ہیں۔ اس سے بہت مثبت اثر پڑے گا۔ مشہور شخصیات پروسیسڈ فوڈ کے اشتہارات کا حصہ نہ بنیں تو پھلوں، سبزیوں اور دیگر صحت بخش غذائی اشیاء کی طلب بھی بڑھے گی۔‘‘

 پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیسی کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اریبہ شاہد
پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیسی کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اریبہ شاہدتصویر: Imtiaz Ahmad/DW

مختار احمد کے مطابق، ''مضر صحت غذائی مصنوعات بڑا مسئلہ ہیں۔ حکومت کو صنعتی ٹرانس فیٹی ایسڈز کے استعمال کو ضابطے میں لانا چاہیے۔ ترجیحی بنیادوں پر مربوط پالیسی اصلاحات متعارف کرائی جائیں اور قانون سازی کے ذریعے ایک ہی پیداواری معیار کا تمام غذائی مصنوعات پر اطلاق کر کے اسے عملاﹰ نافذ بھی کیا جائے۔‘‘

پاکستانی قومی اسمبلی کی رکن ڈاکٹر شازیہ صوبیہ اسلم سومرو نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں امراض قلب سالانہ دو لاکھ سے زائد اموات کا باعث بن رہے ہیں۔ صنعتی ٹرانس فیٹس ذیابیطس، دماغی امراض، ہائپر ٹینشن، کئی طرح کے سرطان اور دیگر بیماریوں کی وجہ بن رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو بچوں کے فارمولا دودھ تک میں صنعتی ٹرانس فیٹ پائے گئے، جو انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جب پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کسی کو گرفتارکیا جائے، تو کہا جاتا ہے: 'اسے چھوڑ دیں، یہ ہمارا بندہ ہے۔‘ یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ غیر صحت بخش فاسٹ فوڈ کی روک تھام کے لیے ہماری فوڈ اتھارٹیز کیا کر رہی ہیں؟‘‘

پاکستان کی وزارت سائنس اور ٹیکالوجی کی پارلیمانی سیکرٹری نگہت شکیل خان سے جب یہ پوچھا گا کہ ٹرانس فیٹس کی روک تھام کے لیے کوئی قانون سازی کیوں نہیں کی جا رہی، تو انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان ایسا ملک ہے جہاں بہت زیادہ قانون سازی کی جاتی ہے۔ لیکن قوانین کے نفاذ کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔ ملک میں ناقص غذائی مصنوعات بیچی جاتی ہیں، جو ہمارے بچے اور بزرگ سبھی کھا رہے ہوتے ہیں۔ قوانین جتنے مرضی بن جائیں، نفاذ نہیں ہو گا، تو سب بے معنی ہوں گے۔‘‘

صوبہ بلوچستان کی فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل ڈاکٹر نور حسن کاکڑ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ہمارا آپریشن ونگ فیلڈ میں جا کر خوراک کے نمونے لاتا ہے، جن کے لیبارٹری میں تجزیے کے بعد ایکشن لیا جاتا ہے۔ جن مصنوعات میں ٹرانس فیٹی ایسڈز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، ان پر مکمل پابندی لگا دی جاتی ہے۔ پھر ذمے دار افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا جاتا ہے۔ جولائی 2023 سے اب تک بلوچستان میں ایسے 22 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔‘‘

سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹیوز (سی پی ڈی آئی) نامی ادارے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مختار احمد
سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹیوز (سی پی ڈی آئی) نامی ادارے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مختار احمدتصویر: Imtiaz Ahmad/DW

ڈاکٹر نور حسن کاکڑ نے بتایا، ''ہم نے 1800 فوڈ بزنس معائنے کیے۔ تقریباﹰ 1200 نمونوں کے تجزیے کیے۔ بناسپتی گھی کے 90 فیصد نمونے اور تیل کے 60 ٖفیصد نمونے ناقص نکلے۔ ہم بچوں اور نوجوانوں کی بہتر آگہی کے لیے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی جاتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ہر گھر اور ہر باورچی خانے کا مسئلہ ہے۔‘‘

روغنی کھانے اور میٹھے مشروبات یادداشت کے لیے نقصان دہ

پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیسی نامی ادارے نے 2023 میں صحت عامہ کی ایک مہم 'ٹرانسفارم پاکستان‘ شروع کی تھی، جس میں اسلام آباد فوڈ اتھارٹی، بلوچستان فوڈ اتھارٹی اور سول سوسائٹی کی جانب سے سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹیو نے بھی حصہ لیا تھا۔ اس سلسلے میں پاکستان یوتھ چینج ایڈووکیسی کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اریبہ شاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اشد ضرورت ایک ایسے ضابطے کی ہے، جس کے تحت سبھی اشیائے خوراک میں ٹرانس فیٹس کی مقدار کل چکنائی کے صرف دو فیصد تک  محدود کر دی جائے۔

اریبہ شاہد کے بقول، ''ہر قسم کی فوڈ کے لیے ایک ہی ضابطہ عالمی ادارہ صحت کی تجاویز کے عین مطابق ہے۔ لیکن اس کا نفاذ بھی انتہائی اہم ہے۔ 2023 میں پاکستانی اتھارٹی نے چھ غذائی اشیاء کے لیے ضابطہ مقرر کیا تو تھا، مگر اب بھی کئی فوڈ پروڈکٹس ٹرانس فیٹ کے ضابطے سے باہر ہیں۔ ان میں الٹرا پروسیسڈ فوڈز، مختلف اسنیکس، ڈیری پروڈکس، چاکلیٹس اور آئس کریم بھی شامل ہیں۔‘‘

سی پی ڈی آئی 'ہارٹ فائل‘ کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور ماہر امراض قلب صبا امجد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انسانوں کی ہر غذا کا اثر دل پر بھی پڑتا ہے۔ ان کے مطابق، ''ٹرانس فیٹی ایسڈز کے مسئلے پر کام تو 2018 میں شروع ہو گیا تھا۔ اب تک کچھ ضابطے بنے تو ہیں۔ لیکن اب حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر یہ پالیسی بنانا چاہیے کہ جو بھی صنعتی کاروباری ادارہ بناسپتی گھی بنائے، وہ اس میں ٹرانس فیٹی ایسڈز کی مقدار دو فیصد سے کم رکھے۔ فوری طور پر ناگزیر قدم یہی ہے۔‘‘