پاکستان میں جیون ساتھی کی تلاش کا نیا اور غیر روایتی انداز
24 اگست 2024پاکستان کے شہر لاہور میں رواں ہفتے منعقد کیے گئے ایک ایونٹ میں درجنوں سنگل نوجوانوں نے شرکت کی، ان کا مقصد تھا اپنے لیے جیون ساتھی کی تلاش۔
روایتی طور پر پاکستان میں یہ کام یا والدین سر انجام دیتے ہیں، لیکن لاہور میں برطانیہ کی 'مُز‘ نامی ایپ کی جانب سے منعقد کیا گیا ایونٹ اس رجحان میں تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس ایونٹ میں تقریباﹰ 100 افراد نے شرکت کی اور ملک میں اس طرح کے دیگر ایونٹس بھی چھوٹے پیمانے پر منعقد کیے جا رہے ہیں۔
مز کی جانب سے پاکستان میں اس نوعیت کا یہ پہلا ایونٹ تھا، جس کا کہنا ہے کہ اس کی ایپلیکیشن اسلامی آداب پر مبنی ہے۔ مز کو صرف مسلم صارفین کے لیے بنایا گیا ہے، جن کے پاس عموماﹰ ایپ پر اپنی تصویر کو دھندلا کرنے کا آپشن ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس ایپ کے ذریعے شادی کے خواہشمند افراد کے مابین ہونے والی گفتگو کی نگرانی کے لیے کسی تیسرے فرد کو 'شیپرون‘ یا 'ولی‘ بھی بنایا جا سکتا ہے۔
اس سب کے باوجود مز کو پاکستان میں تنقید کا سامنا رہا ہے، جہاں بالعموم جیون ساتھی کی تلاش کے لیے اس طرح کی اپیس اور ڈیٹنگ ایپس کے استعمال کو معاشرے میں منفی انداز سے دیکھا جاتا ہے۔
تاہم لاہور میں ہونے والے اس ایونٹ میں شریک اکتیس سالہ ایمن نے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے مز کا استعمال امریکہ میں مقیم اپنے بھائی کی تجویز پر کیا۔ان کا کہنا تھا، ''میں نے دو ہفتے اس ایپ کا استعمال کیا اور پھر اس ایونٹ کا اشتہار دیکھ کر سوچا کہ کیوں نہ لوگوں سے رو برو ملا جائے۔‘‘
اسی طرح وہاں موجود ستائیس سالہ معاذ نے بتایا کہ وہ تقریباﹰ ایک سال سے مز استعمال کر رہے ہیں اور اس کے ذریعے اپنی جیون ساتھی کو ڈھونڈنے کے بارے میں پر امید ہیں۔
اس ایونٹ میں بائیس سالہ عبداللہ احمد بھی موجود تھے۔ انہوں نے روئٹرز کو بتایا، ''اس تقریب کی ہائی لائٹ میری یہاں ایک بہت اچھی لڑکی سے ملاقات تھی۔‘‘ ان کے مطابق ان دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی دیں۔
ان کا کہنا تھا، ''ہم دونوں ہی مارول کے مداح ہیں اور اس کی نئی فلم 'ڈیڈپول اینڈ وولورین‘ ساتھ دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘
مز کے ایونٹ کے علاوہ پچھلے ہفتے لاہور میں ہی 'اینیز میچ میکنگ‘ کے نام سے ایونٹ منعقد ہوا تھا، جس میں الگورتھم کی مدد سے 20 افراد کا انتخاب کر کے ان کو ملاقات کی دعوت دی گئی تھی۔
لیکن اس ایونٹ کی منتطم نورالعین چودھری کو آن لائن اس تنقید کا سامنا رہا کہ یہ ایونٹ ''ہک اپ کلچر‘‘ کے فروغ کا سبب بنا ہے۔
اس کے جواب میں نورالعین کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد صرف سنگل افراد کو ملنے کے لیے ایک محفوظ جگہ فراہم کرنا تھا۔
م ا ⁄ ش ر (روئٹرز)