1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہبرطانیہ

پاکستانی نژاد برطانوی باشندوں میں کزن میرج کا رجحان اب کم

15 نومبر 2024

پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں میں حالیہ برسوں کے دوران کزن میرج کے رجحان میں نمایاں کمی آئی ہے۔ سوشل میڈیا سے حاصل ہونے والی آگاہی اور شادی کے بعد پیدا ہونے والے خاندانی تنازعات اس کمی کا باعث ہوسکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4n0w7
بریڈفورڈ کی مسجد سے نکلتے ہوئے ایک مسلمان شخص
پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں میں کزن میرج کے رجحان کم ہوا ہے، تاہم یہ روایت اب بھی برقرار ہےتصویر: Shahid Arsalan/DW

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی شگفتہ راشد کی شادی ان کے کزن سے ہوئی تھی، جس کے بعد وہ 1990 میں برطانیہ منتقل ہوگئیں، جہاں وہ اپنے شوہر اور پانچ بچوں کے ہمراہ ایک خوشگوار زندگی گزار رہی تھیں۔

شگفتہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے تمام بچے بہت ذہین اور خوبصورت تھے۔ تاہم ان کے خاندان کے لیے پریشانیوں کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب ان کی بیٹی کی آنکھوں کی بینائی کمزور ہونے لگی۔

شگفتہ کہتی ہیں، ’’ہم اس کی اٹھارویں سالگرہ کے تیاری کر رہے تھے جب اس نے نظر کی کمزوری کی شکایت کی۔‘‘

وقت گزرنے کے ساتھ ان کی بیٹی کی بینائی دن بہ دن کمزور ہوتی چلی گئی اور آخر کار وہ بصارت سے محروم ہوگئیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی شگفتہ راشد
شگفتہ راشد کی بیٹی کم عمری میں بصارت سے محروم ہوگئی تھی، تاہم بروقت علاج کے باعث وہ نابینا پن سے محفوظ رہیںتصویر: Shahid Arsalan/DW

شگفتہ کہتی ہیں کہ وہ اس پر شدید مایوسی کا شکار ہوگئیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں مزید خبردار کیا کہ ان کی بیٹی ایک ایسے مرض میں مبتلا ہے، جو عموماً بزرگ افراد میں پایا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ مستقل طور پر نابینا ہو سکتی ہیں۔

لوگوں کے طعن و تشنیع

شگفتہ کی بیٹی کی 18 اور 21 سال کی عمر میں دو بڑی سرجریاں کروائی گئیں جن کی بدولت وہ نابینا پن سے محفوظ رہیں۔

شگفتہ نے بتایا کہ ان کی بیٹی کی بینائی مکمل طور پر بحال نہیں ہوئی ہے اور وہ اب بھی بغیر عینک کے دیکھنے میں مشکل محسوس کرتی ہیں۔ تاہم پہلے سے اب ان کی حالت بہتر ہے اور وہ دبئی میں ایک خوشگوار شادی شدہ زندگی گزار رہی ہیں۔

تاہم جب برطانیہ میں شگفتہ کے پڑوسیوں کو ان کی بیٹی کی بیماری کا علم ہوا تو انہوں نے قیاس آرائیاں شروع کردیں کہ ان کی بیٹی کو یہ بیماری شگفتہ کے اپنے کزن سے شادی کرنے کی وجہ سے ہوئی اور ان کی بیٹی کی بیماری بھی والدین کے مابین خونی رشتے کا نتیجہ ہے۔

پاکستانی نژاد برطانوی خاتون صبیحہ حسن
صبیحہ حسن کے بیٹے کی شادی ان کی کزن سے ہوئی ہے اور ان کا ایک بچہ آٹسٹک ہےتصویر: Shahid Arsalan/DW

شگفتہ کی بہن صبیحہ حسن کہتی ہیں کہ ان کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو لوگوں نے انہیں بھی خاندان کی شادیوں سے منسلک کرکے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔

صبیحہ کے بیٹے کی شادی بھی ان کی کزن سے ہوئی ہے اور ان کا ایک بچہ آٹسٹک ہے۔ ان ہی کے گھرانے کے ایک اور فرد، جن کی شادی خاندان میں ہوئی، کے دو بچے بھی موٹاپے کا شکار ہیں۔ حتٰی کہ اگر بچوں کا وزن بہت زیادہ کم ہونے لگے تو بھی لوگ یہی کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ ان کے والدین کا آپس میں خونی رشتہ بھی ہے۔

جینیاتی نقائص کا خطرہ

بریڈفورڈ، برمنگھم اور لندن بورو آف ریڈبرج میں رہنے والے بچوں کی صحت، نشوونما اور بہبود کا جائزہ لینے کے لیے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق بچوں میں ہونے والی 20 سے 40 فیصد اموات ممکنہ طور پر کزنز کے درمیان شادیوں کے باعث بچوں میں پیدا ہونے والے جینیاتی امراض کے سبب ہوسکتی ہیں۔

برمنگھم سٹی ہسپتال سے منسلک ڈاکٹر شبیہ احمد نے خبرادر کیا ہے کہ رشتہ داروں میں ہونے والی شادیوں کے نتیجے میں بچوں میں پیدا ہونے والے جینیاتی نقائص کا خطرہ سنگین ہوتا ہے۔

دلہن کی علامتی تصویر
ایک تحقیق کے مطابق بچوں میں ہونے والی 20 سے 40 فیصد اموات ممکنہ طور پر کزن میرج کے باعث بچوں میں پیدا ہونے والے جینیاتی امراض کے سبب ہوسکتی ہیںتصویر: Getty Images

ڈاکٹر شبیہ احمد کے مطابق یہ مسائل نہ صرف برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں یا کشمیریوں بلکہ عربوں اور ایسی دیگر برادریوں میں بھی پائے جاتے ہیں جہاں خاندان میں شادیوں کا رواج عام ہے۔

برطانیہ میں خاندانی شادیوں کی شرح میں کمی

سن 2007 سے 2011 کے دوران 13500 خاندانوں کے مطالعے سے حاصل کردہ نتائج کے مطابق 60 فیصد شادی شدہ جوڑے جن کی پیدائش پاکستان میں ہوئی ان کا آپس میں خونی رشتہ تھا۔ تاہم اگر کوئی میاں بیوی برطانیہ میں پیدا ہوئے ہوں اور ان کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہو تو یہ تناسب 30 فیصد رہ جاتا ہے۔

2016 سے 2020 کے درمیان کیے جانے والے ایک اور مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستانی برادری میں کزن میرج کی شرح میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے جو 60 فیصد سے کم ہوکر 40 فیصد ہوگئی ہے۔

زیورات اور مہندی سے سجے دلہن کے ہاتھ
کزن میرج کے رجحان میں نمایاں کمی کے باوجود، پاکستانی نژاد برطانوی باشندوں میں کزن میرج کرنے والے جوڑوں کی تعداد سفید فام برطانوی شہریوں کی نسبت زیادہ ہےتصویر: Rahmat Gul/AP Photo/picture alliance

اس کے باوجود بھی یہ اعداد و شمار سفید فام برطانوی شہریوں میں کزن میرج کی شرح کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہیں۔ موجودہ ڈیٹا کے مطابق، ایک فیصد سے بھی کم افراد اپنے عم زاد سے شادی کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا کا کردار اہم

شگفتہ کہتی ہیں، ’’برطانیہ میں پیدا ہونے والے بچے صحت کے مسائل سے متعلق زیادہ معلومات رکھتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں اور وہ نہ صرف صحت سے متعلق مسائل بلکہ ہر مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں۔‘‘

شگفتہ کا ماننا ہے کہ اکثر شادی کے بعد خاندان میں ہونے والے جھگڑوں کے باعث بھی لوگ اب کزن میرج سے گریز کرنے لگے ہیں۔

بریڈفورڈ کے قریب رہایش پذیر ایک اور پاکستانی نژاد برطانوی شہری، جن کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہے، کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کو اپنے جیون ساتھی کا خود انتخاب کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

’کم سنی میں کسی کی دلہن ہوں‘

انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر مزید بتایا، ’’میرے اپنے بیٹے نے تمام تر خاندانی دباؤ کے باوجود اپنی کزن سے شادی کرنے سے انکار کردیا لیکن میں نے اس فیصلے میں خاندان کے دیگر افراد کے برعکس اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ایسی شادیاں لوگوں میں طبی مسائل کا سبب بن سکتی ہیں اور ان کی حوصلہ شکنی کی جانے چاہیے۔‘‘

مذہب، والدین کی اطاعت، نوجوانوں کو کزن میرج کی طرف مائل کر رہی ہیں

بریڈفورڈ میں مقیم کارکن بینش فارس کہتی ہیں کہ کزن میرج کے رجحان میں بڑے پیمانے پر کمی آرہی ہے۔ تاہم، مذہبی رجحان کے حامل نوجوان، اگرچہ محدود پیمانے پر، دوبارہ اس طرز کی شادیوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

بینش کہتی ہیں، ’’مذہب والدین کے احترام اور فرمانبرداری پر بہت زور دیتا ہے۔ اس لیے میں نے کچھ مذہبی رجحان کے حامل نوجوانوں کو دیکھا ہے کہ وہ شادی کے معاملے میں والدین کے مشورے پر عمل کرتے ہیں یا کچھ معاملات میں کزنز سے شادی کرنے پر رضامند بھی ہوجاتے ہیں۔‘‘

ح ف /  ص ز (ڈی ڈبلیو)