مصنوعی ذہانت کی حامل مشینیں کتنی ذہین ہیں؟
مصنوعی ذہانت کے خطرات سے متعلق بحث میں شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے حالانکہ ’ذہین‘ مشینوں کی تیاری کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تو کیا اس موضوع پر اس قدر ہنگامہ بلا جواز ہے؟
ایٹم بم سے بھی بڑا خطرہ؟
سِلیکون وَیلی کے سٹار ایلون مَسک نے، جواسپیس ایکس اور ٹیسلا موٹرز کے بانی ہیں، گزشتہ سال موسمِ گرما میں خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کی صورت میں انسان نے اپنی بقا کے لیے سب سے بڑے خطرے کو جنم دیا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ’مصنوعی ذہانت‘ ممکنہ طور پر وہ سب سے بڑی غلطی ہے، جو انسان سے سرزد ہوئی ہے۔
سب کچھ محض مبالغہ آمیز ہِسٹیریا؟
لیکن کیا ایسا نہیں ہے کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کے حامل روبوٹ مستقبل میں انسان کو مدد اور تعاون فراہم کریں گے، جیسا کہ ہالی وُڈ کی تازہ سائنس فکشن فلم ’چَیپی‘ میں دکھایا گیا ہے؟ اس فلم کے مطابق اس روبوٹ کو اس طرح سے پروگرام کیا جاتا ہے کہ وہ سوچ بھی سکتا ہے اور محسوس بھی کر سکتا ہے۔ یہ روبوٹ پولیس کے ایک جارح روبوٹ یونٹ پر قابو پانے میں انسانوں کی مدد کرتا ہے۔
انتہائی تیز رفتار ڈرون سمندر میں غرق ہو گیا
حالیہ کچھ عرصے پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی ’مصنوعی ذہانت‘ کے معاملے میں بہت کچھ گڑبڑ بھی ہو سکتی ہے مثلاً 2011ء کے موسمِ گرما میں امریکی فوج کے فالکن ایچ ٹی وی ٹو نامی ڈرون کی آزمائشی پرواز کوئی مثالی منصوبہ ثابت نہ ہوا۔ بغیر پائلٹ کے چلنے والا اور آواز سے زیادہ رفتار کا حامل یہ ہوائی جہاز اپنی پرواز شروع کرنے کے صرف نو منٹ بعد ہی سمندر میں غرق ہو گیا تھا۔
دیکھا جائے تو کچھ نیا نہیں ہے
اس موضوع پر تمام تر تازہ بحث مباحثے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ فوجی نظاموں میں ’مصنوعی ذہانت‘ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ تقریباً بیس برسوں سے ’مصنوعی ذہانت‘ کے حامل اجزاء ہی کی بدولت بہت سے فوجی نظام بہتر طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال یورو فائٹر ہے۔
سائنس فکشن اور حقیقت کا ملاپ
وقت کے ساتھ ساتھ ’ذہین‘ مشینیں زیادہ سے زیادہ غیر معمولی ہوتی جا رہی ہیں گو روزمرہ زندگی سے ابھی وہ اتنی مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ چار ٹانگوں والا روبوٹ ’بِگ ڈاگ‘ اپنے ساتھ وزن لے کر ناہموار زمین پر چڑھ اتر سکتا ہے اور برف پر چل سکتا ہے۔ دریں اثناء گوگل نے یہ روبوٹ تیار کرنے والی کمپنی بوسٹن ڈائنیمِکس خرید لی ہے۔
تو پھر کیا کیا جائے؟
یقینی بات یہ ہے کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کے حامل نظاموں میں ہونے والی تیز رفتار ترقی کے سبب اس بحث کی ضرورت بہرحال موجود ہے۔ ’مصنوعی ذہانت‘ کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے پیشگی کوششوں کی ضرورت ہے اور ’مصنوعی ذہانت‘ کو ذمے داری کے ساتھ پروگرام کرنے کے سلسلے میں کبھی نہ کبھی تو بنیادی اخلاقی اصول، سیاسی ضابطے اور معیارات طے کرنا ہی ہوں گے۔