مشرق وسطیٰ ’ڈیل میکر‘ ٹرمپ کی واپسی کا منتظر
10 نومبر 2024امریکہ کے دیرینہ اتحادیوں اسرائیل اور مصر نے جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں بطور امریکی صدر آئندہ واپسی کا جشن منایا ہے، وہیں قطر، ایران، اور امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت کرنے والے ایران کی زیر قیادت ''محور مزاحمت‘‘ کے دیگر ارکان نے اس پیشرفت سے متعلق سفارتی طور پر ''سیاسی بے حسی‘‘ کا اظہار کیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کی پالیسیوں سے نمٹنے کے اپنے منفرد انداز کو جاری رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ لندن میں قائم تھنک ٹینک چیٹم ہاؤس کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ماہر نیل کوئلیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ٹرمپ خود کو ڈیل میکر کے طور پر پیش کرنا پسند کرتے ہیں۔ وہ وہیں سے آغاز کرنا چاہیں گے، جہاں سے انہوں نے چھوڑا تھا۔‘‘
کوئلیم کے خیال میں ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے تین بڑے سیاسی منصوبے ہیں۔ پہلے وہ غزہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل کے تنازعات کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کریں گے۔
تاہم غزہ میں جنگ کا خاتمہ، غزہ پٹی کی مستقبل کی انتظامیہ کا قیام، اور فلسطینی ریاست کی ممکنہ تخلیق غالباً مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے دوسرے وژن سے جڑے ہوئے ہیں۔
کوئلیم نے کہا، ''ٹرمپ ابراہیمی معاہدوں میں نئی جان ڈالنا چاہیں گے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے والی ریاستوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''سعودی عرب ان کا بنیادی ہدف ہے لیکن ریاض اس وقت تک مزاحمت کرے گا، جب تک کہ ٹرمپ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے منصوبے کے لیے کوئی طویل مدتی معاہدہ نہیں کرتے۔‘‘
ابراہیمی معاہدے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان امریکی ثالثی میں ہونے والے معاہدوں کا ایک سلسلہ تھا جو ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں شروع کیا گیا تھا۔ انہی معاہدوں کے تحت اسرائیل 2020 اور 2021 میں مراکش، بحرین، متحدہ عرب امارات اور سوڈان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو معمول پر لایا تھا۔
سعودی عرب بھی 2023 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ پر گامزن تھا۔ تاہم یہ مذاکرات اس وقت رک گئے تھے، جب حماس نےسات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملے کیے، جن کے ساتھ ہی غزہ کی جنگ شروع ہو گئی اور اب اسے ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔
بعد میں اسرائیل کا لبنان میں ایران نواز گروپ حزب اللہ کے ساتھ تنازعہ بھی شروع ہو گیا تھا۔
لندن میں قائم رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ میں مشرق وسطیٰ میں جیو پولیٹیکل خطرات کی تجزیہ کار اور سلامتی کی ماہر برجو اوزجیلک نے کہا کہ جب ٹرمپ امریکی طاقت کے اظہار کی کوشش کریں گے اور ایک ڈیل میکر کے طور پر اپنی مخصوص ''برتری‘‘ کا مظاہرہ کریں گے، تو ایسے میں ''اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ انہیں سات اکتوبر کے بعد کا مشرق وسطیٰ پہلے کی نسبت زیادہ چیلنجنگ محسوس ہو گا۔‘‘
'بہت سے خلیجی عرب‘ ٹرمپ کی شخصیت کو پسند کرتے ہیں
واشنگٹن میں خلیجی عرب ریاستوں کے انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ایک سینیئر اسکالر کرسٹن سمتھ دیوان کے ایک تبصرے کے مطابق زیادہ تر خلیجی عرب شہری غزہ میں جنگ اور اسرائیل کی تاحال جاری فوجی مہمات میں ہزاروں فلسطینی اور لبنانی شہریوں کی ہلاکتوں کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی حمایت کو ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اس صورتحال نے متحدہ عرب امارات میں امریکہ کے لیے کبھی پایا جانے والا جوش و خروش بھی ٹھنڈا کر دیا ہے۔
اسی ریاست متحدہ عرب امارات میں بہت سے لوگوں نے ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کی 2016 کی فتح کی حمایت کی تھی لیکن 2024 میں ایسی صورتحال نہیں ہے۔
تاہم ان کے خیال میں یہ ممکن ہے کہ جب ٹرمپ جنوری میں وائٹ ہاؤس واپس آئیں گے، تو ان کی شخصیت اس صورتحال کا رخ موڑ سکتی ہے۔ ان کے بقول، ''بہت سے خلیجی عربوں میں ٹرمپ کی مقبولیت نہ صرف ان کی خارجہ پالیسی بلکہ ان کی شخصیت سے بھی ماخوذ ہے۔‘‘
مشرق وسطیٰ کے ایک مصری سیاسی تجزیہ کار اشرف العشری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ''ٹرمپ اور عرب حکمرانوں کے درمیان سیاسی کیمسٹری کی وجہ سے ٹرمپ اور عرب ممالک جیسے مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن کے درمیان مزید بہتر تعلقات دیکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔‘‘
ٹرمپ ایران کو کیسے سنبھالیں گے؟
تاہم اس وقت یہ ''سیاسی کیمسٹری‘‘ امریکہ کے علاقائی دشمنایران کے ساتھ ساتھ ایران کے حمایت یافتہ 'محور مزاحمت‘ کے دھڑوں تک نہیں پھیلی ہوئی، جن میں غزہ میں حماس، لبنان میں حزب اللہ، یمن کے حوثی اور عراق میں موجود شیعہ گرپوں کے ارکان شامل ہیں۔
برجو اوزجیلک نے کہا، ''ٹرمپ نے ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروپوں کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا ہے اور اگر امریکی اہلکاروں یا خطے میں ان کے مفادات کو نشانہ بنایا گیا، تو ممکنہ طور پر بھاری نقصان کا خطرہ ہو گا۔‘‘
لیکن وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتیں کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان فوجی کشیدگی بڑھنے کے باوجود ٹرمپ امریکہ کو ایران کے ساتھ براہ راست کسی تصادم میں گھسیٹنے کی طرف مائل ہوں گے۔ اس کے علاوہ چیٹم ہاؤس کے ماہر کوئلیم کے مطابق ایران کے ساتھ معاہدہ کرنا ٹرمپ کا تیسرا بڑا سیاسی مقصد ہو گا۔
ان کے بقول،''ایسا کرنے کے لیے ٹرمپ یہ جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالیں گے کہ ایران اس وقت کمزور ہو چکا ہے اور اس کی قیادت اور جوہری پروگرام کے خلاف ایک بڑے اسرائیلی حملے کا خواب اسے مزید لچکدار بنا دے گا اور یوں ایران ایک عظیم سودا کرنے پر آمادہ ہو جائے گا۔‘‘
کوئیلم کے نقطہ نظر کی بازگشت اوزجیلک کی گفتگو میں بھی سنائی دی، جن کا کہنا تھا، ''سخت گیر انداز ریپبلکنز کے لیے زیادہ قابل قبول ہے، جس میں حساس ایرانی اہداف جیسے جوہری تنصیبات یا توانائی کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف اسرائیلی فوجی حملوں کی حمایت بھی شامل ہے۔‘‘
تاہم وہ یہ بھی مانتی ہیں کہ ٹرمپ '' کشیدگی کے خاتمے کے لیے تہران کے ساتھ بات چیت پر بھی غور کر سکتے ہیں، وہ بھی صرف خود کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر پیش کرنے کے لیے، جس نے وہ ناقابل تصور کام کیا ہو، جو اس سے قبل کوئی بھی امریکی صدر نہیں کر سکا، اور وہ ہے مشرق وسطیٰ میں امن کا حصول۔‘‘
جینیفر ہولائس (ش ر⁄ م م)