جنوبی ایشیا میں پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور بھارت میں ابھی بھی مشترکہ خاندانی نظام موجود ہے۔ یہ ایسی جامد ثقافت ہے، جو معاشرتی رسم و رواج کا حصہ بن چکی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کے رائج ہونے کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اس کے ذریعے کئی گھروں کے افراد ایک ساتھ اخراجات کو تقسیم کر لیتے تھے۔ اسی سے ان کو بچت ہوتی تھی۔
مشترکہ خاندانی نظام کی حمایت کرنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ اس طرزِ معاشرت کے باعث ہمارے بزرگ اپنی زندگی کا آخری وقت آرام سے اپنے بچوں کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔ پاک و ہند کے لوگ فخریہ طور پر اس نظام کو نہ صرف اپناتے ہیں بلکہ مغربی طرزِ معاشرت کے سامنے اپنے مضبوط خاندانی نظام کی مثالیں پیش کر کے مغربی بے راہ روی کے بنیادی نکات اسی خاندانی نظام کو نہ ہونے کو گردانتے ہیں۔ اس کے برعکس مشترکہ خاندانی نظام کے عدم جواز میں لوگوں کا گراف زیادہ ہے۔
عوام کی اب ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ جتنے زیادہ لوگ ہوتے ہیں اتنی ہی پرائیویسی کم ہوتی ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی مسائل ہو جاتے ہیں کیونکہ ہر شخص کی پسند ناپسند کا دائرہ کار مختلف ہوتا ہے۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں سب کی زندگی کے مقاصد بھی ایک ہو جائیں۔ مثال کے طور پر ٹین ایج طبقہ کے نزدیک، چٹ پٹی اشیاء مرغوب ترین ہوتی ہیں دوسری جانب گھر کے بچوں کو ہلکی نمک مرچ جبکہ بزرگوں کا مزاج اور ہوتا ہے۔
اسی طرح اگر ایک خاندان میں 15 تا 20 افراد ہوں اور کئی بہویں مل کر ساس کی نگرانی میں کھانا پکاتی، صفائی ستھرائی کے امور سرانجام دیتی ہوں اور اگر کسی نے کام میں ذرہ برابر بھی کوتاہی کی یا بخوبی کام کو اس کے انجام تک نہ پہنچا سکی خواہ وجہ کوئی بھی ہو تو اسکی اور اسکے شوہر کی خیر نہیں۔
کچھ بہویں ساس، سسر دوسروں کی تعریفات کا پُل باندھ دیتی ہیں یوں وہ ان کی آنکھ کا تارا بن جاتی ہیں۔ یہیں سے "فیورٹ ون" کی دوڑ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ والدین اور اولاد کے درمیان عدم مساوات کا نتیجہ اولاد کی کی نافرمانی میں ہی نکلتا ہے۔ رفتہ دفتہ دلوں میں کینہ و بغض بھر جاتا ہے بعدازاں ایک دوسرے پر اعتراضات، طعن و تنقید کی جاتی ہے۔ ان تمام وجوہ کی بناء پر گھر کا سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں یہ قباحت ہے کہ جوائنٹ فیملی میں اگر نیا نویلا جوڑا علیحدگی کی بات کرتا ہے تو پورا خاندان اسے اَنا کا مسئلہ بنا لیتا ہے۔ اس نے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا گویا سلطنت میں سے حصہ مانگ لیا ہو!!! بلکہ ایسا سوچنے والے کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، خاندان کے درمیان رخنہ و نااتفاقی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہوئے میاں بیوی کو اتنی تو آزادی ہونی چاہیے کہ وہ کبھی کبھار ہوٹلنگ کریں، سیر و تفریح کریں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں زوجین باہر جانے لگیں تو انہیں سب ایسے دیکھتے ہیں کہ جیسے دو نامحرم ڈیٹ پر جا رہے ہوں۔ اگر میاں صاحب بیوی بچوں کے لیے چوری چھپے فاسٹ فوڈ لے جانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو انہیں شاپر وغیرہ ٹھکانے لگانا کسی ڈینجر ٹاسک سے کم نہیں لگتا۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام کا سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ خاندان کے افراد کے مابین بظاہر اتفاق تو نظر آتا ہے مگر اندر ہی اندر حسد و کینہ کی سازشیں پلتی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہیں بالآخر یہ ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹتی ہے۔ نیز ایسے جھگڑوں کا بچوں پر بہت منفی اثر پڑتا ہے ان کی تربیت ڈھنگ سے نہیں ہو پاتی کیونکہ جب ایک ہی گھر میں مختلف سوچ رکھنے والے ہوتے ہیں تو بچے کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کس کی بات صحیح ہے اور کس کی غلط؟ جس سے خود اعتمادی کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور مستقبل میں ان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
انفرادی نظام میں بھائی، بہنوں میں تاحیات الفت و محبت قائم رہتی ہے۔ وہیں والدین کی اعلیٰ نگہداشت کا عملی نمونہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں اسکے برعکس ماحول ہے کہ چھوٹے بیٹے کو والدین کی خدمت کا موقع ملتا ہے اور باقی اولاد خدمت گزاری جیسے عظیم فرض سے محروم رہتی ہے۔
بہرکیف مخلوقِ کائنات نے انسانوں کو ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے، سوچ مختلف ہے، سب کو الگ الگ مقاصد اور صلاحیتوں سے نوازا ہے، مشترکہ خاندانی نظام میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ سب کا مقصد ایک ہو اور سب کی پسند بھی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنے کے لیے آپ کا گونگا، بہرا اور بہت سا بےوقوف ہونا ضروری ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔