1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’محبوب آپ کے قدموں میں‘‘

20 جولائی 2024

جعلی پیر اور عامل کالے جادو سمیت دیگر ڈھونگی طریقوں سے عام افراد سے مال ہتھیاتے ہیں۔ اگر آپ کسی سے محبت کرتے ہیں، تو آپ کو وہ محبوب قدموں میں کیوں چاہیے؟

https://p.dw.com/p/4iXEM
DW Urdu, Tabindah Khalid, Blogger
تصویر: Privat

دنیا بھر میں یک طرفہ محبت کرنے والوں کے لیے یہ جملہ نسخہء کیمیا کا درجہ رکھتا ہے۔ لاحاصل کو پانے کی سعی میں لوگ جعلی عاملین کے آستانوں پر ڈیرہ جما لیتے ہیں اور بعض دل جلے کالے جادو کے ذریعے محبوب کو قدموں میں گرانے کی تگ و دو کرتے ہیں حالانکہ محبوب کی جگہ تو سر آنکھوں پر ہونی چاہیے۔

دنیا کی سب سے لاعلاج بیماری عشق ہے۔ عشق کیا نہیں جاتا بلکہ خودبخود ہوجاتا ہے۔ بقول غالب:

عشق پر زور نہیں ہے یہ ہے وہ آتش غالب

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

بسااوقات یک طرفہ عشق یا محبت میں ناکامی انسان کو مخبوط الحواس بنا ڈالتی ہے۔ محبوب کو پانے اور اس کے فراق میں بےچینی سے نجات حاصل کرنے کے لیے کئی ترقی یافتہ ممالک کے ناخواندہ اور توہم پرست عوام نام نہاد جعلی عاملین اور کاہنوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

کالا جادو ہر ثقافت کا حصہ ہے، پھر چاہے آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا کسی بھی کلچر سے ہو۔ چین، برطانیہ، پیرس ،بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا سمیت کالے جادو کے ماہرین ہر جگہ اپنی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ ہانگ کانگ میں انہیں ''ولن ہٹرز‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں اکثرو بیشتر دیواروں اور کھمبوں پر عاملوں کے اشتہارات کی بھرمار ہے۔ جسے دیکھ کر پڑھے لکھے طبقے کو گِھن آتی ہے گویا کہ ہم جادوگر سامری کے دور میں آگئے ہوں۔ کراچی، حیدرآباد، گوجرانوالہ،فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، ساہیوال جیسے کئی بڑے شہروں کے پلوں کے نیچے ایسے اشتہارات جابجا موجود ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی شہروں میں اس پائے کے عاملین موجود ہیں جو اپنے عملیات اور جنتر منتر کے زور پر نفرت کو محبت اور محبت کو نفرت میں بدل دیتے ہیں۔ کاروبار کی بندش ان کے لیے معمولی کھیل ہے اور طلاقیں دلوانا ان کے قبضے میں ہے، جو ڈنکے کی چوٹ پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کالی شکتیوں کے وہ مالک ہیں جیسے بنگال کا چیختا چنگھاڑتا ہوا جادو، ماسٹر آف دی بلیک میجک، ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں، ہر کام گارنٹی کے ساتھ، صرف ایک رات کے عملیات سے آپ کی پریشانی کا خاتمہ مثلاً بیرون ملک سفر میں رکاوٹ، شوہر کو سیدھے راستے پر لانا، سوتن سے چھٹکارا، ساس سسر کو تابع کرنا، پسند کی شادی، محبوب مچھلی کی طرح تڑپے، اولاد کا نہ ہونا، دشمن کو زیر کرنا۔ ہمارا علم دنیا کے ہر کونے میں اثر کرتا ہے جہاں کسی کا علم نہیں جاتا۔ آپکا روٹھا ہوا محبوب ہمارے علم سے آپ کو فوراً میسج یا کال کرےگا، وغیرہ۔

 حقیقت تو یہ ہے کہ کالے جادو نے آکٹوپس کی طرح ہمارے معاشرے کو جکڑ لیا ہے۔ کچھ ضعیف الاعتقاد لوگ ان کے ہتھے باآسانی چڑھ جاتے ہیں۔ ان کی شعبدہ بازی سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ بَلی چڑھانے کی غرض سے تمامتر شیطانی ٹارگٹ کر گزرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔

کچھ توہم پرست خواتین سسرال کے طعنوں سے تنگ آ کر عاملین کے پاس جاتی ہیں اور اکثر جنسی ہراسانی بلکہ استحصال تک کا شکار ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر شہرقصور کے ڈھونگی بابا کی خوب  دھلائی کی گئی جو لڑکوں کو نفرت سے لاتیں مارتا تھا اور لڑکیوں کو بڑے چاؤ سے جوہڑ میں غسل کرواتا تھا۔ بہت سارے جعلی پیر اپنے آپ کو پہنچا ہوا ثابت کرنے کے چکر میں سنکھیا، نیلا تھوتھا اور زہریلی بوٹیوں سے تعویز لکھتے ہیں جس کو پانی میں گھول کر متعلقہ شخص کو پلانے سے اس کی فوراً موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں تعویز لکھنے والا اور اس کو معاوضہ دینے والا دونوں ہی قابلِ سزا ہیں۔ ان ڈھونگیوں کے ٹولے میں کہیں ٹافیوں والی سرکار ہے تو کہیں دلہن سرکار۔آج کل ''روحانی ڈیجیٹل کرنٹ‘‘ والے عاملوں کا سوشل میڈیا پر مضحکہ خیز چرچا ہے۔ سب کے سب عوام ان کا تمسخر اڑاتے ہیں سمجھ نہیں آتا پھر اس فتنہ کی کون حوصلہ افزائی کرتا ہے؟ بلاشبہ ایسے لوگوں کا روحانی فیض سے کوئی تعلق نہیں۔

ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ اچنبھے کی بات ہے کہ پھر بھی جعلی پیروں، بابوں کے آستانوں پر کیوں جاتے ہیں۔کڑوا سچ تو یہ ہے بدشگونی جیسے عقائد کے حامل افراد ان جعلی عاملین کی پذیرائی کرکے ان کے ''دھندے‘‘ کو فروغ دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پرچی پر لکھے گئےتعویز ڈاکٹروں کے نسخے سے بھی زیادہ اکسیر ہیں۔ ان تعویزات کی ڈیمانڈ اتنی ہے کہ جعلی جادوگروں نے مہنگی گاڑیاں ، کوٹھیاں اور بنگلےخرید رکھے ہیں اور بیسیوں  نوکر چاکر ان کے زیر فرمان ہیں۔گویا کہ کوئی شاہی شخصیت ہوں۔

اہم بات کہ محبوب قدموں میں نہیں بلکہ سر آنکھوں پر بٹھانے کی چیز ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس کے لیے آپ تڑپے ہوں ،ترسے ہوں، اسے شب و روز دعاؤں میں مانگا ہو، جب مل جائے تو اسے قدموں میں رکھا جائے۔ اگر محبوب لاحاصل ہے تو تعویز گنڈوں کی بجائے مسلسل کوشش پر یقین سے کامیابی مل سکتی ہے۔

آپ کے  پاؤں میں جوتا تو ہو سکتا ہے پر محبوب کے قدموں میں نہیں بلکہ آپ کے پاس بیٹھ کر بھی آپ سے کوسوں دور ہو گا لہذا اگر محبوب کو پانا ہے تو اس کا دل جیتیے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔