لطف اللہ خان، نہ ہوتے تو نایاب آوازیں کھو جاتیں
2 نومبر 20241952 میں ایک نوجوان نے پاکستان میں آنے والا پہلا ٹیپ ریکارڈر گیارہ سو چھیالیس روپے اور دس آنے میں خریدا۔ یہ ایک اتفاق تھا جس سے آگے چل کر اردو دنیا میں آوازوں کے سب سے بڑے خزانے کی بنیاد پڑی۔ یہ نوجوان کون تھا؟ ہزاروں آوازوں پر مشتمل ان کا آواز خزانہ کیسے ترتیب پایا اور آج یہ کس حال میں ہے؟
مدراس میں پیدا ہونے والے لطف اللہ خان 1947 میں پاکستان آئے تو کلاسیکی موسیقی کے ساتھ فوٹوگرافی کا شوق بھی گرہ میں باندھ لائے۔ اپنی کتاب 'ہجرتوں کے سلسلے‘ میں وہ لکھتے ہیں، ”شہر کراچی میں نئے نئے مقامات دیکھے، ایسی باتیں نظر آئیں جو بمبئی میں نہ تھیں۔ جی للچایا کہ ان سب کی تصویر کشی کی جائے۔" انہوں نے باون برس فوٹوگرافی کی اور ہزاروں تصویریں جمع کیں مگر ان کی پہچان آواز خزانہ بنا۔
پہلا ٹیپ ریکارڈر اور بسم اللہ خان کی شہنائی
1949 میں لطف اللہ خان نے کراچی میں ایڈورٹائزنگ ایجنسی کھول لی۔ ایک دن ان کے کلائنٹ یونس علی محمد سیٹھ ایک ایسی مشین لائے جو آواز ریکارڈ کرتی تھی۔ وہ تشہیری مہم ڈیزائن کروانا چاہتے تھے۔ لطف اللہ کو دلچسپی پیدا ہوئی اور ساتھ ہی خیال آیا کہ والدہ کی آواز ریکارڈ کرنی چاہیے۔ انہوں نے ٹیپ ریکارڈر اور اس کے ساتھ بائیس ریل ٹیپ خرید لی۔ یوں وہ پاکستان میں آنے والے پہلے ٹیپ ریکارڈر کے مالک بن گئے۔
گھر آ کر انہوں نے سب کو ایک ساتھ بٹھایا اور گفتگو ریکارڈ کی۔ جب ٹیپ چلائی تو سب اچھل پڑے۔ عزیز رشتے داروں اور دوستوں کی آواز ریکارڈ کرنے کے بعد انہیں فکر لاحق ہوئی کہ اب باقی ریل کہاں کھپانی ہے۔
اپنی کتاب 'ہجرتوں کے سلسلے‘ میں وہ لکھتے ہیں، ”میرے پاس 'مرفی‘ نامی ایک بھنڈی قسم کی چیز تھی۔ یہ ریڈیو مجھے اس لیے پسند تھا کہ اس کی کارکردگی بہت عمدہ تھی۔
ایک صبح دفتر جانے سے پہلے میں نے بمبئی اسٹیشن ٹیون کیا۔ بسم اللہ خاں صاحب شہنائی بجا رہے تھے۔ میں نےٹیپ ریکارڈر اور مائکروفون برابر کے کمرے سے لا کر ریڈیو کے سامنے رکھ دیا اور ریکارڈ کرنے لگا۔
اسی شام چند دوست کھانے پر آ رہے تھے۔ میں نے انہیں سنایا۔ سن کر سب بہت خوش ہوئے۔ اس واقعے سے میرے حوصلوں کو نئی جہت ملی۔ اب میں اس تلاش میں رہنے لگا کہ آئندہ کون سا پروگرام ریکارڈ کروں۔"
یہاں سے آوازیں ریکارڈ کرنے کا وہ سفر شروع ہوا جس کی کم از کم اردو دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
آڈیو لائبریری: مشکل کام جسے شوق نے آسان کر دیا
ابتدا میں جب ریڈیو پر آنے والے پروگرام ریکارڈ کرنا شروع کیے تب ایک ملغوبہ سا تیار ہو رہا تھا، موسیقی، شاعری، مذہب بغیر ترتیب جمع ہو رہے تھے۔ انہوں نے مختلف کیٹیگریز بنانا شروع کیں۔
اپنی کتاب 'ہجرتوں کے سلسلے‘ میں وہ بہت تفصیل سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے موسیقی، ادب اور مذہب کے الگ الگ ریل تیار کیے، پھر ان میں مزید ذیلی کیٹیگریز تیار کیں، جیسا کہ کلاسیکی موسیقی، نیم کلاسیکی موسیقی، قوالی، غزل، فوک وغیرہ۔
تین ساڑھے تین کمرے کے مختصر گھر میں انہوں نے آڈیو سٹوڈیو قائم کیے۔ پہلے وہ محض ریڈیو کے پروگرام ریکارڈ کر رہے تھے اب مختلف فنکاروں کو تلاش کرتے، انہیں اپنے گھر لاتے، تواضع کرتے اور ساتھ ہی ان کی آواز یا ساز ریکارڈ کر لیتے۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک چلتا۔
انہوں نے مختلف ممالک سے ریکارڈنگ مشینیں خریدیں، جب کام زیادہ ہوا تو معاون رکھے مگر کسی کے کام سے مطمئن نہ ہو سکے۔ اپنے ایک انٹرویو میں وہ بتاتے ہیں کہ میں نے ریکارڈ خراب ہونے سے بچانے کے لیے بیرون ملک سے بھی جلدیں تیار کروائیں، وہ موسمی اثرات کے سامنے کارگر ثابت نہ ہو سکیں۔ ”یہاں تک کہ مجھے جلد سازی بھی خود سیکھنا پڑی۔"
ہزاروں ریکارڈنگز کی ترتیب، جلد سازی، ان پر نمبر لگانا اور نام لکھنا کسی بھی طرح ایک شخص کا کام نہیں مگر لطف اللہ خان صاحب نے کر دکھایا۔ حسن ترتیب کا یہ عالم کہ کہا کرتے تھے، ”اگر میں کوئی چیز چھبیس سیکنڈ میں نہ ڈھونڈ سکوں تو سمجھو وہ میرے پاس ہے ہی نہیں۔"
آواز خزانے کو سنبھالنے کی لگن ایسی کہ پچھتر برس کی عمر میں کمپیوٹر سیکھنے کے لیے کمپیوٹر کورس میں داخلہ لے لیا تاکہ کیٹلاگ سازی میں سہولت رہے۔
لطف اللہ خان نہ ہوتے تو ہم ایک نایاب خزانے سے محروم ہو جاتے
نامور سارنگی نواز بندو خان کے پرستاروں میں ایک نام پنڈت نہرو کا ہے جنہوں نے لیاقت علی خان سے ان کے ریکارڈ بھیجنے کی فرمائش کی۔ لیاقت علی خان نے عدم دستیابی کا ذکر کرتے ہوئے معذرت کر لی۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ لطف اللہ خان کے آواز خزانے میں بندو خان کے پانچ سات نہیں بلکہ چھیالیس ایٹم موجود ہیں جو ان کے سوا کہیں سے دستیاب نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ وہ کہیں اور موجود ہی نہیں تھے۔ یہ محض ایک جھلک ہے ورنہ ایسی درجنوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ لطف اللہ خان نے تین مختلف ذرائع سے نایاب آوازوں کا خزانہ ترتیب دیا۔
تیس اور چالیس کی دہائی میں جو ایل پی ریکارڈ تیار ہوئے انہیں اپنے ٹیپ ریکارڈر سے محفوظ کر لیا۔ ایل پی ریکارڈ مختصر تعداد میں تیار کیے جاتے تھے جو کثرت استعمال سے اپنی کھنک کھونے لگتے تھے۔ اگر لطف اللہ خان ایسا نہ کرتے تو نایاب آوازوں کا ایک بڑا ذخیرہ ضائع ہو جاتا۔ مثال کے طور پر استاد عبد الکریم خان صاحب کی تمام ریکارڈنگز لطف اللہ خان نے محفوظ کیں۔
انڈیا اور پاکستان میں ریڈیو کے بہت سے پروگرام براہ راست نشر ہوتے جن کی ریکارڈنگ ہوتی ہی نہیں تھی، لطف اللہ خان انہیں محفوظ کرتے چلے گئے۔
تیسرا طریقہ مختلف مہمانوں کو اپنے ہاں مدعو کرنا اور ان کی آواز ریکارڈ کر لینا تھا۔ اس طریقے سے انہوں نے فیض اور اختر الایمان کا سارا کلام ان کی آواز میں محفوظ کیا۔
موسیقی کے سمندر سے محض غزل کی مثال دیکھیے، لطف اللہ خان نے 342 فنکاروں کی آواز میں تین ہزار آٹھ سو پچیس غزلیں ریکارڈ کیں۔
آواز خزانہ آج کس حال میں ہے؟
2012 میں لطف اللہ خان کی وفات کے بعد افتخار عارف نے کہا تھا، ”میں نے ریڈیو اور ٹی وی میں نایاب خزانے کو ضائع ہوتے دیکھا ہے۔ اگر یہ قوم ان کے خزانے کو محفوظ نہ رکھ سکی تو یہ بہت بدقسمتی کی بات ہو گی۔"
لطف اللہ خود بھی اپنی آڈیو لائبریری کے مستقبل کے حوالے سے بہت فکرمند رہا کرتے تھے۔ اردو دنیا کی خوش قسمتی کہ اس خزانے کو ڈاکٹر خورشید عبداللہ جیسا قدردان نصیب ہوا۔
ویسے تو ڈاکٹر خورشید عبداللہ آغا خان ہسپتال کراچی میں پریکٹس کرتے ہیں لیکن دل ادب، موسیقی اور مذہب کے کلاسیکی خزانے میں اٹکا رہتا ہے۔ وہ اب تک لطف اللہ خان کے خزانے سے تقریباً چھ ہزار موتی یوٹیوب اور فیسبک پر پیش کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو کے معلوم کرنے پر ڈاکٹر خورشید عبداللہ بتاتے ہیں، ”2017 میں عزیز حامد مدنی کی آواز سننے کی خواہش مجھے لطف اللہ خان صاحب کے آستاں پہ لے گئی، خوش قسمتی سے مجھے مطلوبہ ریکارڈنگ مل گئی، میں نے ایک دن میں اس کی دو کاپیاں تیار کروائیں، ایک اپنے پاس رکھی اور ایک اوریجنل کے ساتھ آپا زاہدہ (لطف اللہ خان کی اہلیہ) کے حوالے کر دی۔ وہ بہت خوش ہوئیں۔ اس طرح سلسلہ چل نکلا۔"
ایک شخص کسی معاوضے یا صلے کے بغیر چھ ہزار سے زائد آڈیوز کیسے اپ لوڈ کر سکتا ہے؟ خورشید عبداللہ کہتے ہیں، ”پہلے آپ اس شخص کے ویژن، حوصلے اور شوق کو داد دیجیے جس نے یہ خزانہ تیار کیا اور پوری زندگی اسے سنوارنے میں لگا دی۔ میرا صلہ جمالیاتی اور روحانی تسکین ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔"
آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں، ”مارچ میں لمز یونیورسٹی اور بیگم زاہدہ لطف اللہ کے درمیان معاہدہ طے پایا۔ اب یہ امانت لمز یونیورسٹی کے ذمے ہے، ہم سے جس قدر ہو سکا تہذیبی ذمہ داری نبھانے کی کوشش کی۔ ہم نے معاہدے میں یقینی بنایا کہ عوام تک اس خزانے کی رسائی کسی رکاوٹ یا دقت کے بغیر ممکن ہو سکے۔‘‘