فلسطین میں مقامی میڈیا کے مطابق حماس کے کنٹرول والے غزہ کے علاقے کے اعلی ترین شرعی جج نے منگل 16 فروری کو کہا کہ وہ اس حالیہ متنازعہ فیصلے پر نظر ثانی کریں گے جس میں غیر شادی شدہ خواتین کو اپنے مرد سر پرستوں سے اجازت نامہ حاصل کیے بغیر سفر پر جانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
اس متنازعہ فیصلے کا اعلان گزشتہ اتوار کو کیا گیا تھا جس پر انسانی حقوق کے علمبرداروں نے سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حکم فلسطین میں صنفی مساوات سے متعلق قوانین کی صریحا ًخلاف ورزی ہے۔
علماء کے اس فیصلے کو غزہ کی کونسل کے چیئرمین حسان جوجو نے بھی منظوری دیدی تھی لیکن اس کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے مظاہرین نے جب ان کے دفتر تک مارچ کیا تو انہوں نے اس میں تبدیلی کی بات کہی ہے۔
اس حوالے سے حسان جوجو نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ''ہم نے اس فیصلے کے مسودے پر نظر ثانی پر اتفاق کیا ہے۔'' تاہم انہوں نے یہ وضاحت نہیں کہ اس میں ممکنہ کیا تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔
-
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سن 1955: لڑکیوں کے لیے پہلا اسکول
سعودی عرب میں لڑکیاں اس طرح کبھی اسکول نہیں جا سکتی تھیں، جیسا کہ ریاض میں لی گئی اس تصویر میں نظر آ رہا ہے۔ سعودی عرب میں لڑکیوں کو اسکولوں میں داخلے کا موقع پہلی مرتبہ سن 1955 میں ملا تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ سن 1970 میں قائم کیا گیا تھا۔
-
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سن2001 : شناختی کارڈز کا اجراء
اکیسویں صدی کے آغاز پر سعودی عرب میں خواتین کے لیے پہلی مرتبہ شناختی کارڈز کا اجراء شروع کیا گیا۔ کسی مشکل صورت میں مثال کے طور پر وارثت یا جائیداد کے کسی تنازعے میں ان خواتین کے لیے یہ کارڈ ہی ایک واحد ایسا ثبوت تھا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کر سکیں۔ آغاز میں یہ کارڈز صرف مرد سرپرست کی اجازت سے ہی جاری کیے جاتے تھے۔ تاہم سن دو ہزار چھ میں اس پابندی کا خاتمہ بھی کر دیا گیا۔
-
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سن2005 : جبری شادیوں کا اختتام ( کاغذی سطح پر)
سعودی عرب میں سن دو ہزار پانچ میں قانونی طور پر خواتین کی جبری شادیوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تاہم آج بھی اس اسلامی ریاست میں حقیقی طور پر کسی خاتون کا اپنی رضا مندی سے شادی کرنا ناممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔ اب بھی سعودی عرب میں شادیوں کے حتمی فیصلے لڑکیوں کے والد اور ان کے ہونے والے شوہر ہی کرتے ہیں۔
-
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سن 2009 : پہلی وزیر خاتون
سن دو ہزار نو میں شاہ عبداللہ نے ملک کی پہلی خاتون حکومتی وزیر کو چنا۔ تب نورہ بنت عبد الله الفايز کو نائب وزیر برائے تعلیم نسواں مقرر کیا گیا تھا۔
-
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سن 2012 : اولمپک مقابلوں کے لیے پہلی خاتون ایتھلیٹ
سعودی عرب نے سن دو ہزار بارہ میں پہلی مرتبہ اجازت دے دی کہ اولمپک مقابلوں کے لیے ملکی خواتین ایتھلیٹس کا دستہ بھی بھیجا جائے گا۔ اس دستے میں سارہ عطار بھی شامل تھیں، جنہوں نے اس برس لندن منعقدہ اولمپک مقابلوں میں ہیڈ اسکارف کے ساتھ آٹھ سو میٹر ریس میں حصہ لیا۔ تب ایسے خدشات تھے کہ اگر ریاض حکومت نے ملکی خواتین کو ان مقابلوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی تو سعودی عرب پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
-
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سن 2013: موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت
سعودی عرب کی حکومت نے سن دو ہزار تیرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس کے لیے سیر و سیاحت کے کچھ مقامات کو مختص کیا گیا۔ خواتین باقاعدہ مکمل لباس کے ساتھ اپنے مرد رشتہ داروں کے ساتھ ہی وہاں جا کر اپنا یہ شوق پورا کر سکتی ہیں۔
-
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سن 2013: مشاورتی شوریٰ میں خواتین کی نمائندگی
فروری سن دو ہزار تیرہ میں شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی مشاورتی کونسل کے لیے تیس خواتین کا انتخاب کیا۔ تب اس قدامت پسند ملک میں خواتین کے لیے ان اہم عہدوں پر فائز ہونے کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا تھا۔
-
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سن 2015: ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق
سعودی عرب میں سن دو ہزار پندرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت ملی۔ اسی برس اس ملک میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں خواتین پہلی مرتبہ الیکشن میں حصے لینے کی بھی اہل قرار پائیں۔ نیوزی لینڈ وہ پہلا ملک تھا، جس نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا، یہ بات ہے سن 1893 کی۔ جرمنی میں خواتین کو ووٹ کا حق 1919ء میں ملا تھا۔
-
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سن 2017: سعودی اسٹاک ایکسچینج کی خاتون سربراہ
فروی سن دو ہزار سترہ میں سعودی اسٹاک ایکسچینج کی سربراہ کے طور پر سارہ السحیمی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سعودی عرب میں اس اہم عہدے پر کسی خاتون کا تقرر عمل میں آیا۔
-
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سن 2018: ڈرائیونگ کی اجازت
چھبیس ستمبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ خواتین کو گاڑی چلانے کی قانونی اجازت دی جا رہی ہے۔ جون سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین کو ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اپنے کسی مرد سرپرست سے اجازت لیں یا گاڑی چلاتے ہوئے مرد سرپرست کو بھی ساتھ بٹھائیں۔
-
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سن 2018: اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت
انتیس اکتوبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی عرب کی ’جنرل اسپورٹس اتھارٹی‘ نے اعلان کیا کہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین ملک میں قائم تین بڑے اسپورٹس اسٹیڈیمز میں جا کر وہاں منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں سے لطف انداز ہو سکیں گی۔
مصنف: عاطف بلوچ (Carla Bleiker )
وہ کنواری ہو یا نہ نہیں؟
حماس کی حمایت یافتہ غزہ کی شرعی عدالت کی سپریم کونسل نے اتوار کے روز اپنے ایک متنازعہ فیصلے میں اٹھارہ برس سے کم عمر کے لڑکوں، طلاق شدہ والدین کے بچوں اور غیر شادی خواتین کو اپنے مرد سرپرستوں سے اجازت لیے بغیر سفر کو ممنوع قرار دیا تھا۔
اس سلسلے میں کونسل کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا، ''ایک غیر شادی شدہ خاتون، چاہے وہ کنواری ہو یا نہ ہو، اسے اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر سفر پر نہیں نکلنا چاہیے۔'' اس فیصلے میں ان بچوں کو سفر پر لے جانے سے متعلق بھی ہدایات تھیں جن کے والدین طلاق کی وجہ سے علیحدہ ہوگئے ہیں۔
اس حوالے سے کہا گیا تھا، ''جو چھوٹے بچے اپنی ماں کے پاس ہیں انہیں اس وقت تک اپنے باپ کے ساتھ بھی سفر پر جانے کی اجازت نہیں ہے جب تک انہیں ان کے سرپرست کی جانب اس کی اجازت حاصل نہ ہو، اور اگر ماں متفق ہو، تو بھی اس کے لیے عدالت سے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا لازمی ہے۔''
فیصلہ انسانی حقوق کے منافی
مقامی میڈیا کے مطابق شرعی کونسل کے فیصلے پر سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی اس فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔
فلسطین کے لیے یورپی وفد نے بھی اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس نے اس حوالے سے ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا، ''یہ فیصلہ جانبدارانہ سلوک پر مبنی ہے جس سے فلسطینی خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور واضح طور پر یہ غلط سمت میں اٹھا گیا ایک قدم ہے۔''
جینوا میں واقع 'دی یورو میڈی ٹیریئن ہیومن رائٹس مانیٹر' کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے تو خود فلسطینی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
ادارے نے ایک بیان میں کہا، ''غزہ پٹی کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کے اصولوں کے نفاذ اور احترام کو یقینی بنائیں اور ایسی جانبدارانہ ہدایت یا سرکلر جاری کرنے سے باز رہیں جن سے ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔''
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، روئٹرز)