جنوبی ایشیا کے ممالک کے بچوں کی عمومی صحت پر فضائی آلودگی کے شدید اثرات کی تفصیلات اُس رپورٹ میں شامل ہیں، جسے امریکا میں قائم ہیلتھ ایفیکٹس انسٹیٹیوٹ نے مرتب کیا ہے۔ اس رپورٹ کا عنوان ’فضائی آلودگی کی عالمی رپورٹ‘ رکھا گیا ہے۔ اس رپورٹ نے ساری دنیا میں بچوں کی بے وقت موت کا سبب بننے والے عارضوں میں فضائی آلودگی کو بھی شمار کیا ہے۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ فضائی آلودگی نے جنوبی ایشیا کے ملکوں میں پیدا ہونے والے بچوں کی اوسط عمر میں بیس ماہ کی کمی کر دی ہے یعنی پیدا ہونے والے بچوں کی اوسط عمر وقت کے ساتھ بیس ماہ کم ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ فضائی آلودگی سے ہونے والی بچوں کی اموات کا تناسب سڑک پر ہونے والےحادثات، ملیریا اور کم غذائیت سے زیادہ ہے۔
بچوں کی اوسط عمر میں کمی کے حوالے سے واضح کیا گیا کہ پیدا ہونے والے بچے میں عمر کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تاہم آلودہ ماحول میں رہنے سے بچے کی عمر کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
شدید فضائی آلودگی نے کم عمر بچوں کا جینا محال کر دیا ہے
اوسط عمر میں کمی کی وجہ جنوبی ایشیائی ملکوں کی ناموافق فضا اور مکانات کے اندر کی گُھٹی ہوئی نقصان دہ ہوا کو قرار دیا گیا ہے۔ ان ملکوں کے کم آمدنی والے گھروں میں لکڑی یا کوئلہ جلایا جاتا ہے اور ان سے اٹھنے والا دھواں بچوں کے لیے شدید نقصان دہ ہوتا ہے۔
یہ رپورٹ سن 2017 کے اختتام تک کی صورت حال پر مبنی ہے۔ تمام تر اقدامات کے باوجود چین اب بھی وہ ملک ہے جہاں فضائی آلودگی سے بچوں کی اموات سب سے زیادہ ہے۔ اس ملک میں سن 2017 میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد آٹھ لاکھ باون ہزار کے قریب تھی۔ فضائی آلودگی کے حامل پانچ ایشیائی ممالک میں چین کے علاوہ بھارت، پاکستان، انڈونیشیا، اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔
اس رپورٹ میں خاص طور پر یہ واضح کیا گیا کہ فضائی آلودگی کی موجودہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو پاکستان، بھارت اور نائجیریا کے بچوں کی اوسط عمر میں ایک سال تک کی کمی ہو جائے گی۔
-
دنیا کے دس ایسے شہر، جہاں سانس لینا خطرے سے خالی نہیں
1۔ لاہور
ایئر ویژول نے حالیہ دنوں میں لاہور کا ’ایئر کوالٹی انڈکس‘ پانچ سو سے زائد تک ریکارڈ کیا۔ PM2.5 معیار میں فضا میں موجود ایسے چھوٹے ذرات کا جائزہ لیا جاتا ہے جو سانس کے ذریعے پھیپھڑوں اور خون تک میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2012 کے ڈیٹا کے مطابق لاہور میں PM2.5 کی سالانہ اوسط 68 رہی تھی۔
-
دنیا کے دس ایسے شہر، جہاں سانس لینا خطرے سے خالی نہیں
2۔ نئی دہلی
ایئر کوالٹی انڈکس میں لاہور کے بعد آلودہ ترین ہوا بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ریکارڈ کی گئی جہاں PM2.5 ساڑھے تین سو تک ریکارڈ کیا گیا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2012 کے ڈیٹا کے مطابق نئی دہلی میں PM2.5 کی سالانہ اوسط 122 رہی تھی۔
-
دنیا کے دس ایسے شہر، جہاں سانس لینا خطرے سے خالی نہیں
3۔ اولان باتور
منگولیا کا دارالحکومت اولان باتور ایئر ویژول کی اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں PM2.5 ایک سو ساٹھ سے زیادہ رہا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈیٹا کے مطابق اولان باتور میں PM2.5 کی سالانہ اوسط 75 رہی تھی۔
-
دنیا کے دس ایسے شہر، جہاں سانس لینا خطرے سے خالی نہیں
4۔ کلکتہ
بھارتی شہر کلکتہ بھی آلودہ ترین ہوا والے شہروں کی اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں PM2.5 حالیہ دنوں میں ڈیڑھ سو سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2014 کے ڈیٹا کے مطابق کلکتہ میں PM2.5 کی سالانہ اوسط 61 رہی تھی۔
-
دنیا کے دس ایسے شہر، جہاں سانس لینا خطرے سے خالی نہیں
5۔ تل ابیب
اسرائیلی شہر تل ابیب میں بھی PM2.5 کی حد ڈیڑھ سو کے قریب رہی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے 2014 میں جمع کیے گئے ڈیٹا کے مطابق تل ابیب میں PM2.5 کی سالانہ اوسط بیس رہی تھی جب کہ قابل قبول حد پچاس سمجھی جاتی ہے۔
-
دنیا کے دس ایسے شہر، جہاں سانس لینا خطرے سے خالی نہیں
6۔ پورٹ ہارکورٹ
ایک ملین سے زائد آبادی والا نائجیرین شہر پورٹ ہارکورٹ اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں ایئر کوالٹی انڈکس ایک سو چالیس ریکارڈ کیا گیا۔
-
دنیا کے دس ایسے شہر، جہاں سانس لینا خطرے سے خالی نہیں
7۔ ممبئی
بھارتی شہر ممبئی آلودہ ترین ہوا کے حامل شہروں کی اس فہرست میں شامل تیسرا بھارتی شہر ہے جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس ایک سو تینتیس رہا۔
-
دنیا کے دس ایسے شہر، جہاں سانس لینا خطرے سے خالی نہیں
8۔ شنگھائی
چینی شہر شنگھائی میں بھی بڑے لیکن آلودہ ہوا والے شہروں کی اس فہرست میں شامل ہے جہاں PM2.5 ایک سو انتیس ریکارڈ کیا گیا۔
-
دنیا کے دس ایسے شہر، جہاں سانس لینا خطرے سے خالی نہیں
9۔ شینگدو
چین کے شینگدو نامی شہر میں بسنے والے ایک ملین سے زائد انسان آلودہ ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ ایئر ویژول کے مطابق اس شہر میں چھوٹے خطرناک ذرات ماپنے کا معیار ایک سو چودہ رہا۔
-
دنیا کے دس ایسے شہر، جہاں سانس لینا خطرے سے خالی نہیں
10۔ ہنوئی
ویت نام کے دارالحکومت ہنوئی میں بھی ایئر کوالٹی انڈیکس کا درجہ ایک سو بارہ رہا جو قابل قبول معیار سے دوگنا سے بھی زائد ہے۔
مصنف: شمشیر حیدر