فرانسیسی مڈل اسکولوں میں طلبا کے پاس موبائل فون ہونا ممنوع
15 ستمبر 2024اس تجرباتی منصوبے کے تحت ان پونے دو سو سے زائد مڈل اسکولوں کے نوجوان طلبا و طالبات کو اسکولوں میں داخل ہوتے ہی اپنے اپنے موبائل فونز اسکول انتظامیہ یا اس کے نمائندوں کو جمع کرانا پڑا کریں گے۔ ابھی اس پابندی کا نفاذ صرف 11 سے 15 برس تک کی عمر کے 50 ہزار سے زائد طلبا و طالبات پر تجرباتی سطح پر کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا، تو ممکن ہے کہ 2025ء سے اس کا نفاذ ملک بھر کے تمام اسکولوں میں ہو جائے۔
فرانس میں نرسری، پرائمری اور مڈل اسکولوں میں سن 2018 سے موبائل فون یا دیگر الیکٹرانک مواصلاتی آلات کے استعمال پر پابندی ہے۔
فرانسیسی ہائی اسکولوں میں 15 سے 18 سال تک کی عمر کے نوجوان تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض اسکول مخصوص جگہوں پر موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگا سکتے ہیں، جبکہ کچھ اسکولوں میں جامع پابندی کے ساتھ پورے کیمپس میں موبائل فون کا استعمال ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے۔
ملکی صدر ایمانوئل ماکروں نے اسی سال جنوری میں کہا تھا کہ وہ نوجوانوں کے لیے ایسے آلات اور ان پر اسکرین ٹائم کے حوالے سے ’’کچھ قواعد و ضوابط‘‘ تشکیل دینا چاہتےتھے۔ اب نئی پابندیوں کا نفاذ بھی حکومت کے اسی مقصد کے پیش نظر کیا ہے۔
صدر ماکروں کو پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 11 سال سے کم عمر کے فرانسیسی بچوں کو موبائل فون کے استعمال کی اجازت نہیں ہونا چاہیے، جبکہ 15 سال سے کم عمر کے نوجوانوں کے لیے سوشل میڈیا یا عوامی رابطوں کی ویب سائٹس تک رسائی بھی محدود ہونا چاہیے۔
جہاں تک دیگر یورپی ممالک میں ایسے ضوابط کی بات ہے تو شمالی یورپی ملک سویڈن کے صحت عامہ کے ملکی ادارے کے مطابق دو سال سے کم عمر کے بچوں کو ڈیجیٹل میڈیا اور ٹی وی سے مکمل طور پر دور رکھا جانا چاہیے جبکہ ان سے زیادہ عمر کے بچوں اور نوجوانون کے ٹوٹل اسکرین ٹائم کو محدود کرنا بھی ضروری ہے۔
اسی طرح برطانیہ کے سب سے بڑے موبائل نیٹ ورک آپریٹرز میں سے ایک ای ای (EE) نے بھی برطانوی والدین کو خبردار کر رکھا ہے کہ وہ اپنے 11 سال سے کم عمر کے بچوں کو ذاتی استعمال کے لیے کوئی اسمارٹ فون خرید کر نہ دیں۔
فرانسیسی وزارت تعلیم کے مطابق اسکولوں میں موبائل فون کے استعمال کی ممانعت سے ان تعلیمی اداروں کا ماحول بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے، جو نہ صرف نوجوانوں کو آن لائن ہراساں کیے جانے کے واقعات میں کمی لاتی ہے بلکہ یوں طلبا آپس میں ایسا ڈیجیٹل مواد بھی شیئر نہیں کر سکتے، جو تشدد سے متعلق ہو۔
اس کے علاوہ یہ بات تو واضح ہے ہی کہ اسکولوں میں موبائل فونز کے استعمال پر پابندی سے نوجوانوں کو اپنی توجہ تعلیم پر مرکوز کرنے میں مدد ملتی ہے۔
فرانسیسی حکام کے بقول 180 مڈل اسکولوں میں نئے تجرباتی منصوبے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ نوجوان طالب علموں کو ڈیجیٹل آلات کے متوازن استعمال کے بارے میں بہتر طور پر آگاہ کیا جا سکے۔
پیرس میں ملکی وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ نئے پائلٹ پروجیکٹ کو ہر اسکول اپنے طور پر اس طرح نافذ کر سکتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ خود کرے کہ عملاﹰ اس پابندی کا نفاذ کیسے کیا جائے۔ یعنی اگر کوئی اسکول چاہے، تو وہ اپنے ہاں طالب علموں کے موبائل فونز رکھنے کے لیے باقاعدہ کوئی لاکر سسٹم بھی متعارف کرا سکتا ہے۔
ایک بات طے ہے اور وہ یہ کہ ان اسکولوں میں نوجوانوں کے موبائل فونز ان کے پاس نہیں رہیں گے۔ یہ فونز اسکول پہنچنے پر کسی کو جمع کرا دیے جائیں گے یا کسی لاکر میں رکھ دیے جائیں گے اور واپس گھر جاتے ہوئے ہی دوبارہ طلبا کے پاس ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پڑھائی میں وقفے اور غیر نصابی سرگرمیوں کے دوران بھی طلبا کے پاس ان کے موبائل فونز نہیں ہوا کریں گے۔
اگر نیا تجربہ کامیاب رہا، تو اس نوعیت کی پابندی کا اطلاق جنوری 2025ء سے ملک کے تمام 6980 اسکولوں میں ہونے لگے گا اور اس عمل پر تقریباﹰ 130 ملین یورو تک کی لاگت آ سکتی ہے۔
فرانسیسی وزیر تعلیم نیکول بیلوبے کا کہنا ہے کہ یہ پابندی بتدریج نافذ کی جائے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس عمل پر اٹھنے والے مالی اخراجات مجھے تو معمولی لگتے ہیں۔‘‘ تاہم اس خاتون وزیر کی رائے کے برعکس بہت سے فرانسیسی باشندوں کے ذہنوں میں کئی طرح کے خدشات بھی پائے جاتے ہیں۔
مڈل اور ہائی اسکولوں کے اساتذہ کی ایک سرکردہ تنظیم کے مطابق یہ نئی پابندی بہت سے سوالات کو بھی جنم دیتی ہے۔ اس تنظیم کی سربراہ صوفی وینیٹیٹے کو تشویش ہے کہ اس پابندی کا مؤثر نفاذ کیسے ممکن بنایا جائے گا۔
فرانسیسی اساتذہ کی ایک سرکردہ تنظیم کے نیشنل سیکرٹری جیروم فورنیئر نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طلبا سے ان کے فون لینے، انہیں سنبھال رکھنے اور پھر اسکول کے اختتام پر انہیں واپس کرنے کے لیے اضافی عملہ درکار ہو گا۔
فرانسیسی اسکول پرنسپلوں کی سب سے بڑی ملکی یونین کے سیکرٹری جنرل برونو بوبکیوِٹس بھی جیروم فورنیئر کے تحفظات سے اتفاق کرتے ہیں۔
ح ف / ص ز (اے ایف پی)