غزہ میں اسکول پر حملے میں ہلاکتیں ایک سو کے قریب
10 اگست 2024غزہ میں عسکریت پسند تنظیم حماس کے زیر انتظام شہری دفاع کے محکمے کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ شہر کے وسطی علاقے میں آج ہفتے کی صبح ایک اسکول پر اسرائیل کی جانب سے کیے گئے فضائی حملے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر ایک سو کے قریب پہنچ گئی ہے۔
اس محکمے کے ترجمان محمود باسل نے کہا ہے، ’’اب تک 93 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں گیارہ بچے اور چھ خواتین بھی شامل ہیں۔‘‘ ٹی وی پر نشر کی جانے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب تک کئی ہلاک ہونے والوں کی شناخت نہیں ہو پائی ہے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے اس تعداد پر شک و شبے کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس حملے میں اسکول کے اندر موجود عسکریت پسند تنظیم حماس کے ایک کمانڈ سینٹر کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج نے مزید کہا کہ یہ اسکول ایک مسجد کے ساتھ واقع ہے، جو غزہ شہر کے رہائشیوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق یہ دس ماہ سے غزہ پٹی میں جاری جنگ کے دوران کیے گئے مہلک ترین اسرائیلی حملوں میں سے ایک تھا۔
اس حملے کے بعد کی ویڈیوز میں متاثرہ اسکول میں زمین پر انسانی اعضا بکھرے ہوئے دیکھے گئے اور لوگوں کو کمبلوں میں لاشوں کو لے جاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
لوگوں کو بچانے کے لیے کام کرنے والے ایک عینی شاہد ابو انس کے مطابق یہ حملہ بغیر کسی پیشگی وارننگ کے بغیر اس وقت کیا گیا، جب لوگ اسکول کے اندر واقع ایک مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے۔ اس عینی شاہد کا کہنا تھا، ''وہاں لوگ نماز پڑھ رہے تھے، وہاں لوگ نہا رہے تھے اور اوپری منزل پر لوگ سو رہے تھے، جن میں بچے، عورتیں اور بوڑھے شامل تھے۔‘‘
محمود باسل کے مطابق اس اسکول میں غزہ جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے تقریباﹰ 350 خاندانوں نے پناہ لی ہوئی تھی۔
اس سے قبل انہوں نے بتایا تھا کہ تین میزائل اسکول اور مسجد کے اندر گرے، جہاں تقریباً 6000 بے گھر افراد جنگ سے پناہ لیے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا، '' بغیر کسی وارننگ کے ان پر میزائل گرے۔ پہلا میزائل گرا اور پھر دوسرا۔ (جس کے بعد) ہم نے انسانی جسمانی اعضاء برآمد کیے۔‘‘
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل، مصر، قطر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ترکی اور فرانس سے اس حملے کی مذمت کی ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی کے سربراہ فلپ لازارینی نے بھی ایک مذمتی بیان میں کہا، ’’اب وقت آ گیا ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے پیش آنے والے یہ ہولناک واقعات ختم ہوں۔‘‘
غزہ کے اسکول پر حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب امریکی، قطری اور مصری ثالثوں نے جنگ بندی کے معاہدے کے لیے دونوں فریقوں یعنی اسرائیل اور حماس پر دباؤ میں اضافہ کیا ہے تاکہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد مل سکے۔
تہران میں حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ اور بیروت میں حزب اللہ کے ایک سینئر کمانڈر کے قتل کے بعد خطے میں جاری جنگ پھیلنے کے خدشات مزید زور پکڑ چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق چھ جولائی تک غزہ پٹی کے 564 اسکولوں میں سے 477 جنگ کے دوران براہ ر.است حملوں نشانہ بن چکے تھے انہیں نقصان پہنچا تھا۔
جون میں وسطی غزہ میں بے گھر فلسطینیوں کو پناہ دینے والے ایک اور اسکول پر اسرائیلی حملے میں کم از کم 33 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں 12 خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ اسرائیل نے غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کا الزام حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ گروپ اسکولوں اور رہائشی محلوں کو اپنی کارروائیوں اور حملوں کے لیے اڈوں کے طور پر استعمال کرکے عام شہریوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیل کی جنگی مہم میں 39,600 سے زائد فلسطینی ہلاک اور 91,700 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔
خیال رہے کہ غزہ کی موجودہ جنگ سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گردانہ کے حملے سے شروع ہوئی، جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 250 دیگر کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ ان حملوں کے جواب میں اسرائیلی دفاعی افواج نے حماس کی عسکری تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔
غزہ کی جنگ سے پہلے غزہ کی 2.3 ملین آبادی میں سے 1.9 ملین سے زیادہ اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہ افراد اسرائیلی حملوں سے بچنے کے لیے بار بار مختلف علاقوں سے بھاگنے پر مجبور رہے ہیں۔ اب اس ساحلی پٹی میں زیادہ تر لوگ تقریباً 50 مربع کلومیٹر (19 مربع میل) کے رقبے میں خیمے کے کیمپوں میں بھرے ہوئے ہیں۔
ش ر⁄ م ا، ع ب (اے پی، روئٹرز)