1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمقبوضہ فلسطینی علاقے

غزہ جنگ: فلسطینیوں کے لیے گدھے ’لائف لائن‘ بن چکے ہیں

25 نومبر 2024

غزہ میں ایندھن کی شدید قلت ہے اور بارہا بے گھر ہونے والوں خاندانوں کے لیے گدھے ’لائف لائن‘ ثابت ہو رہے ہیں۔ غزہ میں 43 فیصد مال بردار جانور (گدھے، گھوڑے، خچر) مارے جا چکے ہیں اور صرف 2,627 ایسے جانور زندہ بچے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4nPUA
 اگست 2024 تک غزہ کے 43 فیصد مال بردار جانور، جن میں گدھے، گھوڑے اور خچر شامل ہیں، مارے جا چکے تھے
اگست 2024 تک غزہ کے 43 فیصد مال بردار جانور، جن میں گدھے، گھوڑے اور خچر شامل ہیں، مارے جا چکے تھےتصویر: BASHAR TALEB/AFP

آمنہ ابو مغصيب کی روزی کا انحصار صرف ایک جانور پر ہے اور وہ ہے ان کا گدھا۔ وہ اپنی گدھا گاڑی کو غزہ میں لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ غزہ میں ایک سال سے زیادہ جنگ کی وجہ سے کاروں کے لیے ایندھن کی بڑے پیمانے پر قلت پیدا ہو چکی ہے۔

 وسطی غزہ کے شہر دیر البلاح میں بے گھر فلسطینوں کو ایک دوسرے مقام پر پہنچانے والی آمنہ کا کہنا تھا، ''جنگ سے پہلے میں دودھ اور دہی فروخت کرتی تھی اور ایک فیکٹری بھی مجھ سے دودھ خریدتی تھی۔‘‘

ان کے ایک ہاتھ میں لگام اور دوسرے میں ربڑ کی ایک چھڑی تھی، جس سے وہ گدھے کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''اب میرے پاس گدھا گاڑی کے علاوہ کوئی دوسری آمدنی نہیں ہے۔‘‘

جنگ سے پہلے بھی غزہ میں گدھا گاڑیاں کافی عام تھیں لیکن گزشتہ سال اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع شروع ہونے کے بعد سے ایندھن کی کمی اور تباہی نے انہیں نقل و حمل کی چند بقیہ اقسام میں سے ایک اہم ذریعہ بنا دیا ہے۔

اسرائیلی فضائی حملوں کی وجہ سے فلسطینیوں کو بار بار نقل مکانی کرنا پڑ رہی ہے اور ان کے لیے گدھا گاڑیاں نقل و حمل کا واحد قابل برداشت ذریعہ ہیں۔  

مروا یاسین بھی اپنے خاندان کے ساتھ نقل و حمل کے لیے گدھا گاڑی استعمال کرتی ہیں، ''میں دیر البلاح سے نصیرات تک لے جانے کے لیے 20 شیکل ( 5.40 ڈالر) ادا کرتی ہوں۔ یہ بہت زیادہ کرایہ ہے لیکن ان حالات میں ہر چیز مناسب معلوم ہوتی ہے۔‘‘ مروا یاسین کے مطابق یہ صرف پانچ کلومیٹر کا راستہ بنتا ہے۔

 اگست 2024 تک غزہ کے 43 فیصد مال بردار جانور، جن میں گدھے، گھوڑے اور خچر شامل ہیں، مارے جا چکے تھے
اگست 2024 تک غزہ کے 43 فیصد مال بردار جانور، جن میں گدھے، گھوڑے اور خچر شامل ہیں، مارے جا چکے تھےتصویر: BASHAR TALEB/AFP

مروا ایک استانی اور تین بچوں کی ماں بھی ہیں۔ ان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میں جنگ کے شروع میں گدھا گاڑی پر سوار ہونے میں شرم محسوس کرتی تھی لیکن اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔‘‘

غزہ میں جانوروں کی اموات

اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے مطابق اگست 2024 تک غزہ کے 43 فیصد مال بردار جانور، جن میں گدھے، گھوڑے اور خچر شامل ہیں، مارے جا چکے تھے۔ اب پورے غزہ میں صرف 2,627 ایسے جانور زندہ بچے ہیں۔

اپنی گدھا گاڑی پر بیٹھی آمنہ ابو مغصيب کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گدھے کے لیے بمشکل چارہ خرید پاتی ہیں جبکہ ان کی ریڑھی بھی خستہ حال ہے۔ غزہ میں نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کی خوراک کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔

سارے دن کے کام اور اخراجات کے بعد آمنہ ابو مغصيب نے صرف 20 شیکل کا منافع کمایا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''میں نے یہ گدھا کریڈٹ پر خریدا تھا اور میرا پہلا گدھا دیر البلاح کی جنگ میں زخمی ہونے سے مر گیا تھا۔‘‘

اس نئے گدھے کی قیمت 25 سو شیکل تھی۔

 اگست 2024 تک غزہ کے 43 فیصد مال بردار جانور، جن میں گدھے، گھوڑے اور خچر شامل ہیں، مارے جا چکے تھے
اگست 2024 تک غزہ کے 43 فیصد مال بردار جانور، جن میں گدھے، گھوڑے اور خچر شامل ہیں، مارے جا چکے تھےتصویر: BASHAR TALEB/AFP

غزہ شہر کے جنوب سے اپنے 20 افراد کے خاندان کے ساتھ بے گھر ہونے والے 32 سالہ عبدالمصباح نے بھی اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے گدھا گاڑی چلانا شروع کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''میں جنگ سے پہلے ایک گاڑی پر سبزیاں بیچتا تھا۔‘‘

عبدالمصباح کا افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا، ''جب بمباری بہت قریب ہوتی ہے تو گدھا گھبرا جاتا ہے۔‘‘عبدالمصباح بھی چارے کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کا درد محسوس کرتے ہیں، ''میں اسے اچھی طرح سے چارہ کھلانے کو یقینی بناتا ہوں، حالانکہ چارے کی فی بوری قیمت تین شیکل سے بڑھ کر 50 شیکل ہو چکی ہے۔‘‘

اسرائیل نے گزشتہ سال جنگ کے ابتدائی مراحل میں ہی غزہ کا تقریباً مکمل محاصرہ کر دیا تھا، جس سے امداد اور سامان کی تقسیم پیچیدہ ہو گئی تھی۔ رواں ماہ اقوام متحدہ کے ایک جائزے میں کہا گیا تھا کہ شمالی غزہ میں قحط کا خطرہ ہے جبکہ فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی اونروا کے مطابق علاقے میں داخل ہونے والی امداد مہینوں میں اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

خان یونس سے بے گھر ہونے والے 23 سالہ یوسف محمد کہتے ہیں کہ ان کا گدھا ان کے خاندان کے لیے ''لائف لائن‘‘ بن گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''جب جنگ شروع ہوئی تو گاڑی کے کرایے بہت مہنگے تھے۔ میرے پاس گدھے پر بھروسہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ جب ہمیں انخلاء پر مجبور کیا گیا تو میرے پاس یہ تھا۔‘‘

 اگست 2024 تک غزہ کے 43 فیصد مال بردار جانور، جن میں گدھے، گھوڑے اور خچر شامل ہیں، مارے جا چکے تھے
اگست 2024 تک غزہ کے 43 فیصد مال بردار جانور، جن میں گدھے، گھوڑے اور خچر شامل ہیں، مارے جا چکے تھےتصویر: BASHAR TALEB/AFP

وسیع پیمانے پر تباہی کے علاوہ اسرائیل کی فوجی مہم نے غزہ میں کم از کم 44,211 افراد کو ہلاک کیا ہے، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔ حماس کے زیر کنٹرول وزارت صحت کے ان اعداد و شمار کو اقوام متحدہ قابل اعتماد سمجھتی ہے۔

اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حماس کے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے نتیجے میں 1,206 ہلاکتیں ہوئیں، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس حملے کے بعد اسرائیل نے جنگی کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔

62 سالہ حسنی ابو وردہ کے مطابق ان کا گھر جبالیہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں تباہ ہو گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس فرار ہونے کے لیے صرف گدھا گاڑی ہی باقی بچی تھی۔ ابو وردہ کہتے ہیں کہ آج کے حالات میں ''گدھا سونے اور جدید کاروں سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔‘‘

ا ا / ش ر (اے ایف پی)