طورخم بارڈر کی بندش سے اطراف کے تاجروں کو شدید مالی نقصانات
13 اگست 2024پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے لیے اہم گزرگاہ طورخم کی بندش سے دونوں ہمسایہ ممالک کے تاجروں کوگزشتہ کئی ماہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دونوں جانب کی حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے تاجروں سمیت عوام کو بھی مزید مہنگائی کی شکل میں اضافی مشکلات درپیش ہیں۔
طورخم کے ساتھ ساتھ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے لیے اہم دیگر گزرگاہوں میں انگور اڈہ، خرلاچی اور غلام خان بھی شامل ہیں اور وہ بھی پچھلے کئی روز سے بند ہیں۔ طورخم بارڈر کراسنگ کی بندش کے خلاف تاجر برادری اور کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹ بھی مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔
اس احتجاج کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں مال برادر گاڑیاں سڑکوں کے دونوں جانب کھڑی ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ویزا پالیسی میں نرمی کی جائے اور عارضی داخلہ دستاویز پاس ہونے کی شرط ختم کی جائے۔
عارضی داخلہ دستاویز کی مخالفت کیوں؟
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے ایک مقامی تاجر رحمان خان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''عارضی داخلہ دستاویز کی فیس100 ڈالر رکھی گئی ہے، جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس عارضی داخلہ دستاویز کی مدت صرف چھ ماہ ہے اور تاجروں کو اس دستاویز کے حوالے سے کوئی تفصیلی طریقہ کار بھی نہیں بتایا گیا۔
رحمان خان کا مزید کہنا تھا کہ اس شرط کی وجہ سے دونوں ممالک کی باہمی تجارت بری طرح متاثر ہوئی ہے، ''تاجروں کو اس قدر شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ وہ اب افغانستان کے ساتھ تجارت کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ یہ بات تو خود پاکستانی معیشت کے لیے بھی بڑی تشویش ناک ہے۔‘‘
پاکستان میں مریضوں کے لیے ویزا فری انٹری، افغان باشندے خوش
طورخم کی سرحد پر مشکلات کی وجہ سے جہاں اگر تاجروں کو نقصانات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں، تو وہیں پر یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ہزاروں مزدوروں اور کسٹمز کلیئرنگ ایجنٹوں کو بھی مسائل کا سامنا ہے۔
طورخم میں کسٹمز کلیئرنگ ایسوسی ایشن کے مجیب خان سے جب ڈی ڈبلیو نے بات چیت کی، تو ان کا کہنا تھا، ''تاجروں اور ٹرانسپورٹروں کا بنیادی مطالبہ ہے کہ ٹریڈ پالیسی جو بھی ہو، ہمیں وہ منظور ہے۔ لیکن اس سے تھرڈ پارٹی کو نکالا جائے۔ اگر کوئی درخواست دہندہ عارضی داخلہ دستاویز یا ٹی اے ڈی کے لیے اپنی فائل مکمل کر کے جمع کراتا ہے، تو اسے زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کے اندر اندر یہ دستاویز مل جانا چاہیے۔‘‘
طورخم بارڈر سے تجارت تیسرے روز بھی معطل
مجیب خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جہاں کہیں بھی تھرڈ پارٹی کو لایا جاتا ہے، وہاں کرپشن شروع ہو جاتی ہے۔ عام تاجروں کی فائلوں کی باری مہینہ مہینہ نہیں آتی۔ لیکن کسی تیسرے فریق یا تھرڈ پارٹی کے ذریعے انہیں یہ دستاویز بہت جلد مل جاتی ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ حکومتی پالیسی کی وجہ سے برآمدات اور درآمدات میں روزانہ مجموعی طور پر کئی ملین ڈالر کے برابر نقصان ہو رہا ہے، ''حکام بغیر کسی جامع تیاری کے سرحد دوبارہ کھولنے کا اعلان تو کر دیتے ہیں، مگر ہوتا یہ ہے کہ مثلاﹰ آج بھی 500 سے لے کر 700 تک سامان سے بھرے ہوئے ٹرک سرحد پار کرنے کے انتظار میں ہیں۔‘‘
سرحد پر آئے روز فائرنگ کا تبادلہ
افغانستان میں دوبارہ طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے پاکستانی اور افغان فورسز کے مابین فائرنگ کا تبادلہ تقریباﹰ روز کا معمول بن چکا ہے۔ گزشتہ روز بھی سرحد کے قریب ہی واقع باچا مینہ کراسنگ چیک پوسٹ پر اطراف کے مابین فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا، جس کی وجہ سے کراسنگ پوائنٹ کو ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا۔ اسی دو طرفہ فائرنگ میں شدت کے باعث ایسے علاقوں سے بہت سے باشندے نقل مکانی بھی کر چکے ہیں۔
پاکستان میں سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ
پاکستان میں اور بالخصوص صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا انحصار افغانستان کے ساتھ تجارت پر بھی ہوتا ہے۔ اگر سرحدیں بند ہو جائیں، تو پاکستان میں پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
سرحدی تنازعے کی وجہ طالبان کی ’غیرقانونی تعمیرات‘ ہیں، پاکستان
کئی روز تک خیبر پختونخوا میں افغانستان کے ساتھ چاروں سرحدی گزرگاہیں، طورخم ، خرلاچی ، انگور اڈہ اور غلام خان، بند ہونے کی وجہ سے اب صوبے میں پھلوں اور سبزیوں کی کمی ہے اور اسی لیے ان کی قیمتوں میں واضح اضافہ ہو چکا ہے۔
کشیدگی میں کمی کے لیے بات چیت
طورخم کی پاک افغان سرحد پر کشیدگی میں کمی کے لیے پاکستان کی فرنٹیئر کور اور افغان فورسز کے مابین ایک فلیگ میٹنگ بھی ہوئی ہے، جس میں اطراف کے حکام فائر بندی پر متفق ہو گئے اور ان مسائل کو وزارت خارجہ کی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
اس اجلاس کے بعد دونوں جانب سے طورخم کی سرحدی گزرگاہ کھولنے کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ تاہم طورخم سے موصولہ آخری اطلاعات تک سرحد پار کرنے کے لیے سینکڑوں کی تعداد میں مال بردار گاڑیاں تب تک وہاں منتظر ہی تھیں۔