1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

طالبان اخلاقی قانون پر دنیا کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار

2 ستمبر 2024

افغانستان کی طالبان حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ خواتین کے سلسلے میں ایک نئے اخلاقی قانون سے پیدا تنازع کے درمیان افغان حکام عالمی برادری کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

https://p.dw.com/p/4kA8K
نئے قانون میں خواتین سے مطالبہ کیا گیا ہے وہ گھر سے باہرنہ نکلیں اور اگر مجبوراﹰ نکلنا ہی پڑے تو اپنے پورے جسم اور چہرے کو ڈھانپ کر نکلیں
نئے قانون میں خواتین سے مطالبہ کیا گیا ہے وہ گھر سے باہرنہ نکلیں اور اگر مجبوراﹰ نکلنا ہی پڑے تو اپنے پورے جسم اور چہرے کو ڈھانپ کر نکلیںتصویر: Wakil Kohsar/AFP

اقوام متحدہ اور یوروپی یونین نے متنبہ کیا ہے کہ اس نئے قانون سے، جس میں خواتین کو مکمل طور پر پردہ کرنے اور عوامی سطح پر اپنی آواز نہ اٹھانے کی ہدایت دی گئی ہے، غیر ملکی ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مشغولیت کے امکانات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان کے تبصروں کا جواب دے رہے تھے جس میں طالبان حکام کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کی یقین دہانی کے بعد افغانستان کی وزارت اخلاقیات نے کہا کہ وہ قانون پر تنقید پر ملک میں اقوام متحدہ کے مشن کے ساتھ مزید تعاون نہیں کرے گا۔

طالبان کے خواتین پر پابندی کے قوانین، یو این کے خدشات مسترد

افغانستان: طالبان کی 'اخلاقی پولیس' کا خواتین کے خلاف کریک ڈاؤن

فطرت نے صحافیوں کو ایک صوتی پیغام میں کہا کہ حکام "اسلامی قانون کے مطابق تمام ممالک اور تنظیموں کے ساتھ مثبت بات چیت کے لیے پرعزم ہیں"۔

قبل ازین افغان حکومت کے اعلی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے قانون کو مسترد کرنے کو 'تکبر' کے مترادف قرار دیا تھا۔

فطرت نے اقوام عالم اور تنظیموں پر زور دیا کہ وہ طالبان حکام کے ساتھ مثبت انداز میں بات چیت کریں۔ انہوں نے کہا "مشکلات کے حل اور تعلقات کی ترقی اور توسیع کے لیے بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔"

سال دو ہزار اکیس میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے، کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اس نے حال ہی میں سفارتی راستہ اختیار کیا، جس میں قطر میں اقوام متحدہ کی میزبانی میں افغانستان پر ہونے والے مذاکرات میں شرکت بھی شامل ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے ترجمان نے اس سے قبل جمعہ کو کہا تھا کہ "ہم طالبان سمیت افغانستان میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں گے۔"

اقوام مت‍حدہ کے سکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے کہا، "ہم نے ہمیشہ اپنے مینڈیٹ کی پیروی کرتے ہوئے ایسا کیا ہے اور میں غیر جانبداری اور نیک نیتی سے کہوں گا کہ ہم اقوام متحدہ کے اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے، انسانی حقوق اور مساوات کے پیغامات کو آگے بڑھانے پر ہمیشہ زور دیتے رہیں گے۔"

انہوں نے مزید کہا، "ہم افغان حکام سے سفارتی مشغولیت کے لیے مزید راستے کھولنے کی درخواست کریں گے۔"

افغان حکومت نے کہا ہے کہ یہ قانون اسلامی تعلیمات میں مضبوطی سے مربوط ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے
افغان حکومت نے کہا ہے کہ یہ قانون اسلامی تعلیمات میں مضبوطی سے مربوط ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیےتصویر: Ebrahim Noroozi/AP Photo/picture alliance

' صنفی عصبیت'

افغان وزارتِ اخلاقیات نے کہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے مشن کی طرف سے نئے اخلاقی قانون پر تنقید کے بعد اس کے ساتھ مزید تعاون نہیں کرے گا۔ افغان وزارتِ اخلاقیات نے گزشتہ ہفتے قانون کی توثیق کی تھی۔

اس قانون، جس میں طالبان کے اسلامی قانون کی سخت تشریح کے مطابق افغانوں کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں پر قواعد شامل ہیں، نے افغانوں، مختلف ممالک، انسانی حقوق کے حامیوں، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور یورپی یونین میں تشویش کو جنم دیا ہے۔

اس نئے قانون میں خواتین پر عوامی سطح پر آواز اٹھانے سے منع کیا گیا ہے اور ان سے مطالبہ کیا گیا ہے وہ بلا ضرورت گھر سے باہرنہ نکلیں اور اگر مجبوراﹰ نکلنا ہی پڑے تو اپنے پورے جسم اور چہرے کو ڈھانپ کر نکلیں۔

مردوں کے رویے اور لباس کے سلسلے میں بھی ضابطے طئے کئے گئے ہیں ۔ جس میں اخلاقی پولیس کو لوگوں کو خبردار کرنے اور عدم تعمیل پر حراست میں لینے کے اختیارات دیے گئے ہیں۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے کہا کہ یہ قانون "افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک پریشان کن نقطہ نظر" پیش کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تعاون کی کوششوں کو روک سکتا ہے۔ یورپی یونین نے بھی اس حوالے سے متنبہ کیا ہے۔

طالبان حکومت اپنی پالیسیوں، جس میں خواتین پر پابندیاں بھی شامل ہیں، پر بین الاقوامی تنقید کو مستقل طور پر مسترد کرتی رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے انہیں "صنفی عصبیت" کا نام دیا ہے۔

أفغان حکومت کے اعلی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ یہ قانون "اسلامی تعلیمات میں مضبوطی سے مربوط ہے" جس کا احترام کیا جانا اور سمجھنا چاہیے۔ مجاہد کے مطابق اس قانون کو مسترد کرنا "تکبر" کو ظاہر کرتا ہے۔

ج ا ⁄ ص ز ( اے ایف پی)