جنوبی کوریا کی فوج نے بتایا ہے کہ شمالی کوریا نے سمندر میں ایک شارٹ رینج بیلسٹک میزائل فائر کیا ہے۔ جنوبی کوریائی فوج کے مطابق شمالی کوریا نے ممکنہ طور پر آبدوز سے لانچ کیے جانے والا بیلسٹک میزائل (ایس ایل ایم بی) ہفتہ سات مئی کو عالمی وقت صبح پانچ بج کر سات منٹ پر اپنے شمالی شہر سنپو کے قریب مشرقی ساحل سے فائر کیا تھا۔
سنپو میں عموماﹰ پیونگ یانگ کی آبدوزیں اور یلسٹک میزائلوں کے تجربے کے لیے دیگر ساز و سامان موجود ہوتا ہے۔
جاپان نے تازہ تجربے کی تصدیق کر دی
جاپان کی وزارت دفاع نے بھی پیونگ یانگ کی جانب سے بیلسٹک میزائل فائر کرنے کا بتایا ہے۔ جاپانی کوسٹ گارڈ نے مزید کہا کہ مذکورہ میزائل پانیوں میں تقریباﹰ پانچ بج کر پچیس منٹ پر گرا تھا۔
-
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
پہلا قدم
کم جونگ اُن پہلے شمالی کوریائی رہنما ہیں، جنہوں نے کوریائی جنگ میں فائر بندی کے 65 برس بعد جنوبی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ کم نے کہا کہ جنوبی کوریا داخل ہوتے ہی وہ ’جذبات کی ایک بڑی لہر میں بہہ نکلے‘۔ جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن سرحد پر کم جونگ اُن کا استقبال کرنے کو موجود تھے۔ ان دونوں رہنماؤں کی سمٹ کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔
-
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
نئے تعلقات کے آغاز کا عہد
کیمونسٹ رہنما کم جون اُن نے کہا کہ وہ ہمسایہ ملک جنوبی کوریا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں۔ سن انیس سو ترپن میں کوریائی جنگ کے خاتمے کے بعد سے پہلی مرتبہ کسی شمالی کوریائی رہنما نے جنوبی کوریا کا دورہ کیا ہے۔ جب کم جونگ اُن نے جنوبی کوریا کی سرحد عبور کی تو جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن نے ان کا استقبال کیا۔
-
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
تاریخی مصافحہ
جنوبی کوریا داخل ہونے پر اُن نے اِن سے ہاتھ ملایا۔ اس موقع پر کم نے کہا کہ یہ مصافحہ خطے میں قیام امن کی طرف ’افتتاحی قدم‘ ہے۔ کم جونگ اُن کی طرف سے جوہری اور میزائل پروگرام منجمد کرنے کے اعلان کے بعد جزیرہ نما کوریا پر کشیدگی کا خاتمہ ہوتا ممکن نظر آ رہا ہے۔ چین اور امریکا نے بھی دونوں کوریائی ممالک کے رہنماؤں کے مابین اس براہ راست ملاقات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
-
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
شمالی کوریائی وفد
جنوبی کوریا کا دورہ کرنے والے شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ ان کی ہمشیرہ اور قریبی مشیر کم یو جونگ کے علاوہ کمیونسٹ کوریا کے بین الکوریائی تعلقات کے شعبے کے سربراہ بھی تھے۔ اسی طرح جنوبی کوریائی صدر کے ہمراہ ان کے ملک کے انٹیلیجنس سربراہ اور چیف آف سٹاف بھی تھے۔
-
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
’ہم ایک قوم ہیں‘
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن کے ساتھ سمٹ میں کہا، ’’اس میں کوئی منطق نہیں کہ ہم آپس میں لڑیں۔ ہم تو ایک ہی قوم ہیں۔ چند ماہ قبل کم جونگ اُن کی طرف سے ایسے کلمات سننے کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ جنوبی کوریا میں کئی حلقے اس سمٹ پر محتاط انداز سے ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔
-
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ
اس سمٹ کے پہلے دور میں دونوں لیڈروں نے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے علاوہ قیام امن کے امکانات پر بھی بات چیت کی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنوبی کوریائی صدر مُون جے اِن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے جزیرہ نما کوریا کو غیر ایٹمی خطہ بنانے کے موضوع پر انتہائی سنجیدگی اور ایمانداری سے تبادلہ خیال کیا۔
-
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
عالمی برداری خوش
1953ء میں کوریائی جنگ میں فائر بندی کے بعد سے مجموعی طور پر یہ تیسرا موقع ہے کہ شمالی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں کی آپس میں کوئی ملاقات ہوئی۔ جاپان، چین اور روس نے اس ملاقات کو خطے میں قیام امن کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
-
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
مذاکرات جاری رہیں گے
اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک تمام شعبوں میں مذاکراتی عمل جاری رکھیں گے اور اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے تمام بین الاقوامی معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا اور دونوں ریاستوں کے مابین سفری پابندیوں کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
-
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی، کم
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ ان کا ملک ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرائے گا۔ اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کے لیے پیونگ یانگ حکومت مکمل تعاون کرے گی۔ طے پایا ہے کہ دونوں ممالک اس تناظر میں جامع مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ تاہم اس بارے میں تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔
-
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
مون جے اِن شمالی کوریا جائیں گے
اس سمٹ کے بعد جنوبی کوریائی صدر کے دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ صدر مون جے اِن شمالی کوریا کا دورہ کریں گے۔ ممکنہ طور پر وہ رواں برس موسم خزاں میں یہ دورہ کریں گے، جہاں وہ شمالی کوریائی رہنما کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ مون جے اِن کے اس آئندہ جوابی دورے کو بھی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
-
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
مقامی آبادی خوش
کم جونگ اُن کی جنوبی کوریا آمد پر کوریائی باشندوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کم کو دیکھا اور براہ راست سنا۔ اس موقع پر کئی افراد نے خصوصی لباس بھی زیب تن کر رکھا تھا۔ دونوں سربراہان نے جنوبی کوریائی علاقے میں واقع سرحدی گاؤں پان مُون جوم میں قائم ’پیس ہاؤس‘ یا ’ایوان امن‘ میں ملاقات کی۔
مصنف: عاطف بلوچ (خبر رساں ادارے)
جاپانی نشریاتی ادارے این ایچ کے نے حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میزائل جاپان کے خصوصی اکنامک زون کے باہر لینڈ ہوا تھا۔
یہ تازہ تجربہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب اس سے تین روز قبل ہی شمالی کوریا نے اپنے دارالحکومت کے ضلع سونان سے بھی ايک مشتبہ بیلسٹک میزائل فائر کیا تھا۔ رواں سال میں پیونگ یانگ کا یہ پندرہواں میزائل لانچ ہے۔
دريں اثناء کچھ روز بعد جنوبی کوریا کے نومنتخب صدر یون سوک یئول اپنے عہدے کا حلف اٹھانے والے ہیں۔ یون نے دس مارچ کو صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی اور انہوں نے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے خلاف سخت ترین اقدامات کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اس امر کے لیے وہ امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کا اشارہ بھی دے چکے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی بھی جنوبی کوریا کے نو منتخب صدر سے جلد ملاقات متوقع ہے۔
شمالی کوريا کے جارحانہ میزائل تجربے
جاپان اور امریکا نے گزشتہ ہفتے کیے گئے میزائل تجربوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔ واشنگٹن حکومت نے اس بات پر زور دیا تھا کہ شمالی کوریا اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی اس قرارداد کی متعدد مرتبہ خلاف ورزی کر رہا ہے، جس کے تحت اس پر بیلسٹک میزائل اور جوہری تجربے کرنے کی پابندی عائد ہے۔
-
جنوبی کوریا میں بحری جہاز کا حادثہ
بدھ کی صبح جنوبی کوریا کے جنوب مغربی ساحل میں ایک مسافر بردار بحری جہاز ڈوبنے کی وجہ سے پچیس ہلاکتوں کی تصدیق کر دی گئی ہے جبکہ 271 ابھی تک لاپتہ ہیں۔
-
جنوبی کوریا میں بحری جہاز کا حادثہ
اس مسافر بردار بحری جہاز کو حادثہ پیش آئے اڑتالیس گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے اور جیسے جیسے مزید وقت گزرتا جا رہا ہے، ویسے ویسے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
-
جنوبی کوریا میں بحری جہاز کا حادثہ
جمعرات کے دن جنوبی کوریا کی صدر پاک گن ہے نے حادثے کے مقام کا دورہ کیا اور امدادی ٹیموں پر زور دیا کہ وہ تلاش کے کام میں کوئی تاخیر نہ کریں۔
-
جنوبی کوریا میں بحری جہاز کا حادثہ
جمعرات کی رات دھند اور مسلسل بارش کی وجہ سے لاپتہ افراد کی تلاش کو مؤخر کرنا پڑ گیا تھا۔ تاہم جمعے کی صبح ہی اس آپریش کو بحال کر دیا گیا۔ ساحلی محافظوں نے بتایا ہے کہ پانچ ہزار ماہر غوطہ خور حادثے کے مقام پر تلاش کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
-
جنوبی کوریا میں بحری جہاز کا حادثہ
شدید موسم کے باعث غوطہ خور جمعرات کی رات بھی غرق ہونے والے اس بحری جہاز میں داخل نہ ہو سکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ 271 لاپتہ کے زندہ بچنے کی امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔
-
جنوبی کوریا میں بحری جہاز کا حادثہ
لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کے ایک گروپ کے ترجمان نے الزام عائد کیا ہے کہ حکام اس سرچ آپریشن کے بارے میں جاری کی جانے والی معلومات میں غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ وہ جندو میں اپنے عزیزوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے جمع ہیں۔
-
جنوبی کوریا میں بحری جہاز کا حادثہ
اس حادثے کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم ابتدائی اندازوں کے مطابق یہ جہاز یا تو کسی پتھر سے ٹکرایا یا پھر اچانک جلدی سے کاٹے جانے والے موڑ کی وجہ سے یہ الٹا۔
-
جنوبی کوریا میں بحری جہاز کا حادثہ
بالخصوص اسکول بچوں کے رشتہ داروں نے الزام عائد کیا ہے کہ ریسکیو آپریشن نامناسب ہے۔ جمعے کی صبح لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کے ایک گروپ کے ترجمان نے الزام عائد کیا ہے کہ حکام اس سرچ آپریشن کے بارے میں جاری کی جانے والی معلومات میں غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔
-
جنوبی کوریا میں بحری جہاز کا حادثہ
Sewol نامی اس بحری جہاز کو جب حادثہ پیش آیا تھا تو اس میں کل 475 مسافر سوار تھے، جن میں ایک ہائی اسکول کے 352 بچے بھی شامل تھے، جو ایک اسکول ٹرپ پر مقبول سیاحتی جزیرے جیجو جا رہے تھے۔
-
جنوبی کوریا میں بحری جہاز کا حادثہ
جنوبی کوریا کے حکام نے بتایا ہے کہ ابھی تک امدادی کارکن 179 مسافروں کو زندہ بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر اسکول کے بچے ہیں۔
-
جنوبی کوریا میں بحری جہاز کا حادثہ
سرچ آپریشن میں ماہر غوطہ خوروں کو ہیلی کاپٹروں اور بحری جہازوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ بتایا گیا ہے کہ امدادی کارروائیوں کے دوران 87 بحری جہاز اور اٹھارہ ایئر کرافٹس بھی شریک ہیں۔
-
جنوبی کوریا میں بحری جہاز کا حادثہ
یہ جہاز Incheon کی بندگارہ سے سیاحتی مقام جیجو جزیرے کی طرف جا رہا ہے۔ ایک سو چھیالیس میٹر طویل اس بحری جہاز میں نو سو مسافروں کی گنجائش تھی۔
مصنف: عاطف بلوچ
امریکا کی جانب سے دو ماہ قبل ہی شمالی کوریا کی کئی شخصیات اور اداروں کے ساتھ ساتھ اس کے اتحادی ملک روس اور چین پر نئی پابندیاں عائد کی گئی تھیں تاکہ شمالی کوریا کے میزائل پروگرام کو روکا جا سکے۔
یہ پابندیاں شمالی کوریا کے اس دعوے کے جواب میں نافذ کی گئی تھیں کہ اس نے مارچ میں اب تک کے اپنے طاقتور ترین بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) کو فائر کیا ہے۔ بعد ازاں ماہرین نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ میزائل کم و بیش اسی آئی سی بی ایم جیسا میزائل تھا، جو اُس نے سن 2017 میں فائر کیا تھا۔
ع آ / ع س (روئٹرز، اے پی)
-
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
تین سالہ جنگ کا آغاز
شمالی کوریا کی فوجیں 25 جون 1950ء کو جنوبی کوریا میں داخل ہو گئی تھیں۔ جنگ شروع ہونے کے چند دنوں بعد ہی جنوبی کوریا کے تقریبًا تمام حصے پر کمیونسٹ کوریا کی فوجیں قابض ہو چکی تھیں۔ تین سال جاری رہنے والی اس جنگ میں تقریباً 4.5 ملین افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
-
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
جنگ سے پہلے کی تاریخ
جزیرہ نما کوریا 1910ء سے لے کر 1945ء تک جاپان کے قبضے میں رہا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد سے منقسم چلا آ رہا ہے۔ شمال کا حصہ سوویت کنٹرول میں چلا گیا جب کہ جنوبی حصے پر امریکی دستے قابض ہو گئے۔ اگست 1948ء میں جنوبی حصے میں ری پبلک کوریا کے قیام کا اعلان کر دیا گیا جب کہ اس کے رد عمل میں جنرل کم ال سونگ نے نو ستمبر کو عوامی جمہوریہ کوریاکی بنیاد رکھ دی۔
-
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
اقوام متحدہ کا کردار
شمالی کوریا کی جانب سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے بعد امریکا اور اقوام متحدہ نے فوری طور پر جنوبی کوریا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بیس ممالک کے چالیس ہزار فوجیوں کو جنوبی کوریا روانہ کیا گیا، ان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 36 ہزار تھی۔
-
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
آپریشن ’ Chromite‘
15ستمبر 1950ء کو امریکی جنرل ڈگلس مک کارتھر کی قیادت میں اتحادی دستے ساحلی علاقے ’ Incheon ‘ پہنچے اور اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد سیول دوبارہ سے جنوبی کوریا کے زیر قبضہ آ چکا تھا۔
-
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
ماؤ کے دستوں کی مدد
1950ء کے اکتوبر میں چین کی جانب سے اس تنازعے میں باقاعدہ مداخلت کی گئی۔پہلے چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں اور بعد ازاں رضاکاروں کا ایک بہت بڑا دستہ شمالی کوریا کی مدد کو پہنچا۔پانچ دسمبر کو پیونگ یانگ اتحادی فوجوں سے آزاد کرا لیا گیا۔
-
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
جوابی کارروائی
جنوری 1951ء میں چین اور شمالی کوریا نے مل کر ایک بڑی پیش قدمی شروع کی۔ اس میں چار لاکھ چینی اور شمالی کوریا کے ایک لاکھ فوجی شامل تھے۔ اس دوران شمالی کوریا کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ امریکا نے چین پر جوہری بم سے حملہ کرنے کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔
-
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
تھکاوٹ کا شکار
1951 ءکے آخر میں جنگ اسی مقام پر پہنچ چکی تھی، جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی یعنی فریقین جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں میں اپنی اپنی سرحدوں میں موجود تھے۔ جولائی 1951ء میں فائر بندی مذاکرات شروع ہونے کے باوجود 1953ء کے موسم سرما تک دونوں وقفے وقفے سے ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہتے تھے۔
-
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
دو نظاموں کی جنگ
کوریائی جنگ کو سرد جنگ کے دوران مشرق اور مغرب کے درمیان پہلی پراکسی وار کہلاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے دستوں میں امریکی فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی جب کہ دوسری جانب شمالی کوریا کی پشت پناہی کے لیے چین اور روس کے لاکھوں سپاہی موجود تھے۔
-
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
بے پناہ تباہی
اس جنگ میں امریکی افواج نے ساڑھے چار لاکھ ٹن بارود استعمال کیا۔ بمباری کا یہ عالم تھا کہ1951ء کے اواخر میں امریکی پائلٹوں نے یہ شکایات کی تھیں کہ شمالی کوریا میں اب کوئی ایسی چیز نہیں بچی ہے، جسے وہ ہدف بنا سکیں۔ شمالی کوریا کے تقریباً تمام بڑے شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔
-
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
لاکھوں افراد ہلاک
1953ء میں جب اتحادی دستوں کا انخلاء شروع ہوا تو اس وقت تک کئی لاکھ افراد موت کے منہ میں جا چکے تھے۔ اس دوران اندازہ لگایا جاتا ہے شمالی اور جنوبی کوریا کے ملا کر پانچ لاکھ فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ چار لاکھ چینی فوجی اور اس جنگ کے دوران مرنے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔
-
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
جنگی قیدیوں کا تبادلہ
1953ء میں اپریل کے وسط اور مئی کے آغاز میں فریقین کے مابین قیدیوں کا پہلی مرتبہ تبادلہ ہوا اور اسی سال کے اختتام تک تبادلے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا کے پچہتر ہزار اور تقریباً سات ہزار چینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ دوسری جانب سے ساڑھے تیرہ ہزار قیدی رہا کیے گئے، جن میں تقریباً آٹھ ہزار جنوبی کوریا کے تھے۔
-
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
فائربندی سمجھوتہ
دس جولائی1951ء کو جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع ہوئے اور بالآخر دو سال بعد 27 جولائی کو معاملات طے پا گئے۔ تاہم اس سمجھوتے پر دستخط نہیں نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک ابھی تک حالت جنگ میں ہیں۔
-
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
ساٹھ سال بعد بھی دشمن
اس جنگ کو ختم ہوئے ساٹھ برس گزر چکے ہیں لیکن ابھی بھی یہ دونوں ممالک کشیدگی کی حالت میں ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیانی سرحد کی نگرانی انتہائی سخت ہے۔ ابھی بھی سرحد کے اطراف دونوں ملکوں کے سپاہی چوکنا کھڑے ہوتے ہیں۔
مصنف: عدنان اسحاق / Esther Felder