پاکستانی سوسائٹی میں آج کل گھروں میں ملازم رکھنے کا ایک ٹرینڈ ہی چل پڑا ہے چاہے تنخواہ کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو دکھاوے کی غرض سے ملازم رکھنا پاکستانیوں کی مجبوری بن چکا ہے۔ ملازمین سے فائدہ اٹھانا اور بدلے میں ان کو بنیادی انسانی حقوق دینا ایک بھاری ذمہ داری ہے بالخصوص اگر وہ غیر مسلم ہوں تو یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ شریعت نے تو غیر مسلموں سے بھی حسن معاشرت کی تعلیم دی ہے۔
نیز آئینِ پاکستان کے مطابق غیر مسلم خواہ مہمان، ہمسایہ یا مسلم ریاست کا ایک شہری ہی کیوں نہ ہو ہر صورت میں حسن سلوک کا حقدار ہے۔ لہذا یہ کلیہ ازبر کرنا وقت کی ضرورت ہے کہ دوسری قومیتوں اور عقائد کے لوگ بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے کہ اکثریتی عقیدہ رکھنے والے۔
غیر مسلم ملازمین روزی کے ہاتھوں اپنے مذہب کے بارے میں دلائل بھی نہیں دے سکتے۔ یہاں پر رواداری کے اصول لاگو ہوتے ہیں۔ اگر مالک کو معلوم ہو جائے کہ یہ غیر مسلم ہے اس پر اس کے مذہبی نظام میں تبدیلی کے لیے اسے ہرگز مجبور نہ کیا جائے۔ نہ ہی اس کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر طنزاً اس کا تمسخر اڑائے۔ یاد رہے کہ سب سے پہلے انسانیت آتی ہے بعد ازاں مذاہبِ عالم۔ ہر انسان معزز ومکرم ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب اورکسی بھی رنگ ونسل سے ہو۔ اس لیے ایسی کوئی بات نہ کی جائے جو ان کے لیے چبھن کا سبب بنے۔ یہ بھی نہ ہو کہ بھری محفل میں ان کو الگ تھلگ رکھا جائے۔
آئے روز ایسی ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں جن میں غیر مسلم ملازمین پر تشدد سامنے آتا ہے، جو کہ سراسر جرم ہے۔ اس سے حد درجہ اجتناب ضروری ہے۔ ہماری صورت حال یہ ہے کہ جب خادموں سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو عفو ودرگزر تو دور رہا ہم اسے طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں زدوکوب کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد اسی سے خدمت لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم اسے ماریں بھی پھر اس سے خدمت کے بھی خواہاں ہوں۔ ان سے کوئی لغزش سرزد ہوجائے تو واقعی غلطی پر انہیں تنبیہہ کی جا سکتی ہے، لیکن اس کا انداز یوں ہو کہ اس کی اصلاح بھی ہو جائے اور اسے تکلیف بھی نہ ہو، چہرے یا نازک جگہوں پر نہ مارا جائے۔
غیر مسلم ملازمین کو ''روبوٹ‘‘ گردانتے ہوئے انہیں ہارڈ ٹاسک دینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ جب کوئی مشکل کام ان کے ذمہ لگائیں تو اس کام میں ان کی مدد کریں مثلاً وہ کسی بوجھ کو اٹھا رہا ہے اور اس کے اٹھانے میں مشقت ہو رہی ہے تو تھوڑا ہاتھ خود بھی لگا دینے سے شملہ نیچا نہیں ہوگا بلکہ ملازمین کی نظر میں مالک کی توقیر بڑھے گی۔ جگر مراد آبادی نے اس منظر نامہ کی کیا خوبصورت تصویر کشی کی ہے کہ
آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر
ایک تنہا آدمیت ہی نہیں
ہر شخص پر اپنے مال کی حفاظت لازم ہے۔ اکثر اوقات کسی چیز کے گم ہوجانے پر بلا ثبوت ملازمین کے جھرمٹ میں کسی غیر مسلم ملازم یا کام کرنے والی ماسیوں پر الزام لگا دیا جاتا ہے، بعد میں پتا چلتا ہے کہ کہیں رکھ کر بھول گئے تھے یا کسی فیملی ممبر کی حرکت ہے۔
ہمدردی کی غرض سے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ملازمین پر مال خرچ کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ انہیں ماہانہ بنیادوں پر غذائی اجناس دلائی جاسکتی ہیں۔ سردیوں میں کمبل، لحاف اور تہوار کے مواقع پر ملازم کے اہلِ خانہ کے کپڑے بنوا کر دیے جا سکتے ہیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم اور شادی بیاہ کے اخراجات کی مد میں رقم دی جا سکتی ہے۔ یہ اضافی معاونت ہے، جو ان کی اجرت اور دیگر ماہانہ سہولتوں کے علاوہ ہوگی۔
ایک اہم پوائنٹ ذہن نشین کرنے کے قابل ہے کہ غیر مسلمین کے تہواروں پر انہیں رعایت دی جائے فرعون نہ بنا جائے۔ جس طرح ہم اپنے تہواروں کے لیے حساس ہوتے ہیں وہ بھی اس طرح کا جذبہ اپنے مذہب کے لیے رکھتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر ان کی تنخواہ پہلے ہی دے دی جائے، ٹال مٹول سے گریز کیا جائے تاکہ وہ اہل و عیال کی خوشیوں کا بندوبست کر سکیں۔ ہو سکے تو تالیف قلب یا معاشرتی حسن کے لیے بونس کا بھی بندوبست کر دیں۔ ایسا نہ ہو کہ ان ایام میں ان کو نہ صرف چھٹی سے محروم کیا جائے بلکہ ان کی ڈیوٹی کے اوقات کار کو بھی بڑھا دیا جائے۔
آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو
اک توجہ چاہیے انساں کو انساں کی طرف
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔