1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتروس

روس کا اوریشنک میزائل: یہ نیا ہتھیار کیسا ہے؟

29 نومبر 2024

روس نے دھمکی دی ہے کہ وہ یوکرینی دارالحکومت میں سرکاری عمارتوں پر بھی نئے میزائل اوریشنک سے حملہ کر سکتا ہے۔ یہ نیا ہائپرسونک میزائل کیسا ہے؟

https://p.dw.com/p/4nYJJ
یوکرین کے شہر دنیپرو پر حملے میں استعمال کیا گیا اوریشنک میزائل کا ملبہ
یوکرین کے شہر دنیپرو پر حملے میں استعمال کیا گیا اوریشنک میزائل کا ملبہ تصویر: Valentyn Ogirenko/REUTERS

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین کے 'فیصلہ کن مراکز‘ پر ممکنہ میزائل حملوں کے خلاف خبردار کیا ہے۔ جمعرات کو آستانہ میں ہونے والی ایک میٹنگ میں پوٹن نے روس کی جانب سے نئے اوریشنک بیلسٹک میزائل کی تعیناتی اور اس کی تباہ کن خصوصیات پر روشنی ڈالی، جس سے یوکرین کے تنازعے میں خطرناک اضافے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

’روس نے یوکرین پر بین البراعظمی میزائل داغا‘

رواں ماہ یوکرین کے شہر دنیپرو پر حملے کے لیے اوریشنک میزائل کا استعمال کیا گیا تھا۔ اوریشنک ایک جدید میزائل ہے جسے روس نے حال ہی میں تیار کیا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے اس میزائل کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس میزائل میں مغربی ممالک کے دفاعی نظام سے بچ نکلنے کی صلاحیت ہے۔ مغربی ماہرین نے اس دعوے پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔

یوکرین نے روس پر برطانوی ساختہ سٹارم شیڈو میزائل داغے، رپورٹ

صدر پوٹن نے کہا، ''ہم اوریشنک کو یوکرین کی فوج، فوجی صنعتی تنصیبات یا فیصلہ سازی کے مراکز بشمول دارالحکومت کییف کے خلاف استعمال کو مسترد نہیں کرتے۔‘‘

’مؤثر اور اچوک نشانہ بنانے والا ہتھیار‘

صدر پوٹن کے مطابق اوریشنک میزائل ایک 'اچوک ہتھیار‘ ہے۔ یہ روایتی ہتھیاروں سے مختلف ہے کیونکہ اس میں ایٹمی وار ہیڈ نہیں ہے لیکن اس کے وار ہیڈ کی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ یہ کسی بھی مضبوط دفاع کو توڑ سکتا ہے۔ ولادیمیر پوٹن نے کہا کہ اس میزائل کا درجہ حرارت 4000 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے اس میزائل کے دھماکے کی مرکزی جگہ پر جو کچھ بھی ہو گا، وہ راکھ میں بدل جائے گا۔

یہ میزائل بہت تیز رفتاری سے پرواز کرتا ہے جس کی وجہ سے اسے روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اوریشنک 2.5 سے تین کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ میزائل فضا میں حرکت کر سکتا ہے اور جدید فضائی دفاعی نظام سے بچ بھی سکتا ہے۔

ولادیمیر پوٹن نے کہا کہ اوریشنک میزائل میں مغربی ممالک کے دفاعی نظام سے بچ نکلنے کی صلاحیت ہے
ولادیمیر پوٹن نے کہا کہ اوریشنک میزائل میں مغربی ممالک کے دفاعی نظام سے بچ نکلنے کی صلاحیت ہےتصویر: Ramil Sitdikov/AP Photo/picture alliance

میزائل کی رینج اور طاقت

اوریشنک ایک درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل ہے، جس کی رینج 1,000 سے 5,500 کلومیٹر تک کے  درمیان ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ یورپ میں کہیں بھی حملہ کر سکتا ہے۔ روس کی اسٹریٹیجک میزائل فورسز کے کمانڈر سیرگئی کاراکائیف نے کہا کہ یہ میزائل پورے یورپ میں کسی بھی مقام کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

یوکرین اور روس کے ایک دوسرے کے انرجی انفراسٹرکچرز پر حملے

اس میزائل کے بارے میں صدر پوٹن نے مزید کہا کہ اوریشنک ایک نئے ڈیزائن کا میزائل ہے، جو پرانے سوویت نظام کے ہتھیاروں سے مختلف ہے۔ امریکی محکمہ دفاع نے اسے ''تجرباتی‘‘ میزائل قرار دیا ہے، جسے روس کے بین البراعظمی میزایل آر ایس چھبیس روباز سے تیار کیا گیا ہے۔

صدر پوٹن اور کاراکائیف نے کہا کہ اگر ایک ساتھ کئی اوریشنک میزائل داغے جائیں، تو ان کا اثر کسی ایٹمی حملے جتنا ہو سکتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اوریشنک صرف ایک عام میزائل نہیں بلکہ ایک بہت ہی طاقتور ہتھیار ہے۔

روس کے یوکرینی دارالحکومت پر ہائپرسونک میزائل حملے

صدر پوٹن کا دعویٰ ہے کہ فی الحال کوئی بھی فضائی دفاعی نظام اوریشنک میزائل کو نہیں روک سکتا۔ اس کی تیز رفتاری اور دوران پرواز سمت بدلنے کی صلاحیت اسے مزید خطرناک بنا دیتی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ اس میزائل کے خلاف کوئی موثر اقدام نہیں کیا جا سکتا۔

روسی گلائڈ بم یوکرین میں تباہی کا ایک نیا ہتھیار

بین الاقوامی ردعمل اور معاہدے کی خلاف ورزی

اوریشنک کی تعیناتی نے مغربی ممالک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ 1987 میں امریکہ اور سوویت یونین نے انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت 500 سے 5500 کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائلوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن 2019 میں دونوں ممالک نے اس معاہدے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ روس کے اس نئے میزائل کی وجہ سے یہ معاہدہ ایک بار پھر زیر بحث ہے۔

روس کا کہنا ہے کہ اس میزائل کی تیاری اب شروع ہو چکی ہے اور اسے مستقبل میں مزید استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس میزائل کے حوالے سے یوکرینی انٹیلیجنس ایجنسیاں کہہ رہی ہیں کہ فی الحال صرف چند پروٹو ٹائپ ہی تیار کیے گئے ہیں تاہم روس جلد ہی اسے بڑے پیمانے پر استعمال کر سکتا ہے۔ حال ہی میں یوکرین نے روس پر امریکی میزائلوں سے حملہ کیا تھا جس کے بعد ایک ممکنہ ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھ چکا ہے۔

ج ا ⁄ م م (اے ایف پی، ڈی پی اے)