جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے آج دیوار برلن کے انہدام کی تقریب کے موقع پر کہا کہ اس دیوار کا نہ ہونا، خود اتنا بلند اور وسیع عمل ہے، جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔
اس دیوار کے انہدام کی تیسویں سال گرہ کے موقع پر جرمنی بھر میں مختلف ریلیاں نکالیں گئیں اور یادگاری تقریبات اور نمائشیں بھی منعقد ہوئیں۔ برلن میں دیوارِ برلن کے انہدام کی تقریب میں سلوواکیا، پولینڈ، چیک جمہوریہ اور ہنگری کے رہنماؤں نے شرکت کی اور پھول نچھاور کیے۔
-
دیوارِ برلن ، انہدام کے 30 برس مکمل
مشرقی گیلری
دریائے اشپری کے ساتھ 1316 میٹرطویل اب بھی دیوار برلن قائم ہے۔ اسے دنیا کی سب سے طویل ’اوپن ایئر گیلری‘ کہا جا سکتا ہے۔ 1990 میں اس دیوار کو دنیا کے مختلف ممالک کے مصوروں نے پینٹ کیا تھا۔ یہ دیوار ذاتی خواہشات، امیدوں اور خوابوں کی عکاس ہے۔ یہاں لگائی گئی تصاویر دیوار برلن گرنے کے بعد کی خوشی اور آزادی کو ظاہر کرتی ہیں۔
-
دیوارِ برلن ، انہدام کے 30 برس مکمل
برلن وال میموریل
برلن کے کسی بھی علاقے میں سابقہ ’ڈیتھ اسٹرپ‘ اتنی واضح نہیں جتنی کہ یہاں ہے۔ اس یادگار میں اسی میٹر طویل برلن وال اور ایک گارڈ ٹاور کی تعمیر نو کی گئی ہے۔ یہ کمپلیکس جرمنی کی تقسیم کے حوالے سے ایک اہم یادگار ہے۔ یہاں برلن وال میں ہلاک ہونے والے افراد کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
-
دیوارِ برلن ، انہدام کے 30 برس مکمل
دیوار برلن کہا تعمیر کی گئی ؟
برلن شہر کے بہت زیادہ حصوں میں اب برلن وال نہیں دیکھی جا سکتی۔ مشرقی اور مغربی برلن اب ایک ہو چکے ہیں۔ شہر کے وسط میں پتھروں کے ذریعے ان جگہوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں جہاں برلن وال تعمیر کی گئی تھی۔
-
دیوارِ برلن ، انہدام کے 30 برس مکمل
چیک پوائنٹ چارلی
مشرقی اور مغربی برلن کی سرحد دیکھنے کے لیے سیاح اس جگہ کا دورہ ضرور کرتے ہیں۔ اس چیک پوائنٹ سے صرف غیر ملکیوں اور سفارت کاروں کو گزرنے کی اجازت تھی۔ اکتوبر 1961 میں برلن وال کی تعمیر کے کچھ ہی عرصے بعد اس جگہ امریکی اور سویت ٹینک آمنے سامنے آ گئے تھے۔
-
دیوارِ برلن ، انہدام کے 30 برس مکمل
آنسوؤں کا محل
اس مقام پر بہت دکھی الوداعی ملاقاتیں ہوئیں۔ یہاں فریڈریش سٹراسے پر قائم سرحد سےسینکڑوں لوگ مشرقی برلن سے مغربی برلن گئے تھے۔ سیاح اُس راستے سے گزر سکتے ہیں جہاں پاسپورٹس چیک کیے جاتے تھے۔ سیاح اس گزرگاہ سے چلتے ہوئے یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ اس وقت شہریوں کو کتنی سختی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
-
دیوارِ برلن ، انہدام کے 30 برس مکمل
ہوہین شُون ہاؤزن میموریلl
سن1994 سے اس سابقہ ’ستاسی جیل‘ کو کمیونسٹ آمریت کے دوران متاثرین کی یادگار بنا دیا گیا تھا۔ سیاحوں کو بتایا جاتا ہے کہ مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت کس طرح سے لوگوں کو قید رکھتی تھی اور تفتیش کے دوران کیسے حربے استعمال کیے جاتے تھے۔ یہ تفصیلات سابقہ قیدی بیان کرتے ہیں۔
-
دیوارِ برلن ، انہدام کے 30 برس مکمل
ٹوئیفل بیرگ لسننگ اسٹیشن
دوسری عالمی جنگ کے بعد اس جگہ کو ملبہ پھینکنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ جنگ کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والی عمارات کے ملبہ کے ذریعے مغربی برلن کے سب سے اونچے مقام پر ٹوئیفلبرگ کی تعمیر کی گئی تھی۔ سرد جنگ کے دوران امریکا کی قومی سکیورٹی ایجنسی اس مقام کو ’لسسننگ اسٹیشن‘ کے طور پر استعمال کرتی تھی۔ اس مقام پر وارسا معاہدے میں شریک ممالک کے عسکری پیغامات سنے جا سکتے تھے۔
-
دیوارِ برلن ، انہدام کے 30 برس مکمل
گلینیکے برج
آپ سمجھتے ہوں گے کہ شاید جاسوسوں کا تبادلہ صرف فلموں میں دیکھا جاتا ہے۔ لیکن برلن اور پوسٹ ڈام کے درمیان اس پل پر ایسے تین آپریشنز کیے گئے ہیں۔ سٹیون اسپیلبرگ نے اس تاریخی مقام کو اپنی فلم ’بریج آف سپائز‘ میں بھی استعمال کیا تھا۔
-
دیوارِ برلن ، انہدام کے 30 برس مکمل
جرمن سپائے میوزیم
پوسٹ ڈامر پلاٹز پر بنایا گیا یہ عجائب گھر آپ کو جاسوسی کی دنیا میں لے جاتا ہے۔ اس عجائب گھر میں خاص توجہ سرد جنگ کے دوران برلن کی سرگرمیوں پر دی گئی ہے۔
مصنف: بینش جاوید / نیوز ایجنسیاں
یورپ بھر سے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد برلن میں موجود ہے، جو اس براعظم کے مستقبل پر اپنی رائے بانٹ رہی ہے۔
برلن میں دیوارِ برلن کی تقریب میں شریک استنبول کے میئر اکرم امام آؤلو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ سیاسی تقسیم یورپی اتحاد کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ ''دیواریں ضروری نہیں کہ مادی ہوں۔ ضروری نہیں کہ وہ سیمنٹ، بجری یا فولاد سے تعمیر کی جائیں۔ کبھی کبھی دو افراد ایک دوسرے کے بالکل قریب کھڑے ہوتے ہیں اور ایک غائبانہ دیوار ان کے درمیان قائم ہوتی ہے۔‘‘
جرمن اور غیرملکی مہمانوں کی جانب سے اس تقریب میں شرکت کے بعد، برلن کے رہائشیوں نے دوپہر میں بیرناؤور اشٹراسے میں دیوارِ برلن کی یادگار کے قریب موم بتیاں روشن کی۔
اس موقع پر سابقہ مشرقی جرمنی ''ڈیموکریٹک ریپبلک جرمنی‘‘ کی گاڑیاں بھی برلن میں دوڑتی دکھائی دیں، جو دیوار برلن کے انہدام کے جشن کا حصہ تھیں۔ آج ہی کے دن سابقہ مشرقی جرمن حکام نے مشرقی برلن کے رہائشیوں کے لیے مغربی برلن میں داخل ہونے کے لیے دروازے کھول دیے تھے اور وہ پیدل اور مقامی گاڑیوں کے ہم راہ مشرقی سے مغربی برلن میں داخل ہوئے تھے۔
آج لائپزگ شہر میں بھی مقامی حکام نے ایک خصوصی نمائش کا انعقاد کیا۔ اس نمائش میں سابقہ مشرقی جرمنی کے مصوروں نے سن 1989 کے جو مناظر اپنی نگاہوں سے دیکھے تھے، انہیں فن کے ذریعے پیش کیا۔ اس نمائش کا نام ''پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ یا 'نکتہء ناقابلِ واپسی‘ رکھا گیا تھا۔
تیس برس قبل جب سابقہ مشرقی جرمنی کے حکام نے اپنی سرحدیں کھولیں، تو ہزاروں افراد مغربی جرمنی کی طرف دوڑے تاکہ وہاں کام تلاش کر سکیں۔ اس وقت سابقہ مشرقی جرمنی کے علاقوں میں آبادی میں مسلسل کمی کا رجحان ہے۔